غزہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی اتھارٹی اور تحریک فتح نے تنظیم آزادی فلسطین ’’پی ایل او‘‘میںشامل جماعتوں پر مشتمل ایک نئی اور مخلوط قومی حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں تحریک فتح نے اپنی آمرانہ پالیسی اورمزاض کو فلسطینی قوم پر مسلط کرنے کی ایک اور کوشش کی ہے۔ پی ایل او میں شامل تنظیموں کے ساتھ شراکت اقتدار کی پالیسی اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے ساتھ مصالحتی کوششوں کی سراسر نفی کے مترادف ہے۔
تحریک فتح نے نام نہاد قومی حکومت کے اعلان کا مقصد فلسطینی اتھارٹی اور ریاستی اداروں پر اپنے اقتدار کی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش ہے۔
اگرچہ اس وقت وزیراعظم رامی الحمد اللہ قومی حکومت کے اختیارات کا استعمال کررہے ہیں مگر تحریک فتح کی ایک ایسی حکومت کی تشکیل کی خواہاں ہے جس میں فلسطین کی کوئی دوسری مؤثرسیاسی طاقت شامل نہ ہو۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ تحریک فتح آمرانہ سیاست پرمصرہے۔ سیاسی امور کے تجزیہ نگار ایاد القرا نے کہا کہ تحریک فتح اس وقت اندرونی سطح پر سخت دباؤ کا سامنا ہے اور وزیراعظم الحمد اللہ کی حکومت پر بھی سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ اس تنقید میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوگیا جب فلسطینی حکومت نے نام نہاد سول سیکیورٹی قانون لاگو کرنے کی کوشش کی۔ اس کےعلاوہ فلسطینی اتھارٹی کے وزیر برائے لوکل گورنمنٹ حسین الاعرج نے الخلیل کے عوام کو صیہونی آباد کاروں کی طرح آباد کار قرار دیا اور ان کے حقوق کی نفی کرتے ہوئے ان کی تذلیل کی کوشش کی جس پر عوامی حلقوں میں تحریک فتح پرسخت دباؤموجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطین میں قومی حکومت کی تشکیل کا معاملہ نیا نہیں۔ اس سے قبل بھی تحریک فتح غیرمؤثر فلسطینی دھڑوں کو حکومت میں شامل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
اختلاف کی خلیج مزید گہری ہوگی
فلسطینی تجزیہ نگار طلال عوکل نے کہا کہ تحریک فتح نے نام نہاد مخلوط قومی حکومت کے قیام پر ایک ایسے وقت میں غور شروع کیا ہے جب فلسطینی دھڑوں کے درمیان پہلے ہی اختلافات پائے جا رہے ہیں۔ اس طرح کے اعلانات سے فلسطینی جماعتوں اور دھڑوں کے درمیان اختلافات کی خلیج مزید گہری ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطین میں بے اتفاقی کو ختم کرنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں پر مشتمل قومی حکومت کی تشکیل کی ضرورت ہے ورنہ اختلافات مزید گہرے ہوں گے۔
فلسطین میں ایک ایسے وقت میں قومی حکومت کی بات چیت چل رہی ہے جب روس کی طرف سے فلسطین کی 10 تنظیموں کو ماسکو میں مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں فلسطین کی نمائندہ سیاسی قوتوں کو نظرانداز کرکے قومی حکومت کے اعلان سے ملک کی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
فلسطینی دانشور وسام ابو شمالہ کا کہنا ہے کہ صدر عباس اور تحریک فتح آمرانہ سیاست کو ترویج دے ہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اور تحریک فتح کی جانب سے ملک کی بڑی سیاسی قوتوں کو نظرانداز کرنا ملک میں سیاسی انتشار کو بڑھانے کی کوشش ہے۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)