اسلام کی آمد سے قبل یہ پورا علاقہ عربی قوموں سے آباد تھا، بیت المقدس میں یہودیوں کا داخلہ تک رومیوں نے قانوناً ممنوع کر رکھا تھا اور فلسطین میں بھی یہودی آبادی قریب قریب ناپید تھی۔
اس کے باوجود یہودیوں کا آج بھی یہ دعویٰ ہے کہ فلسطین ان کے باپ دادا کی میراث ہے، جو خدا نے انہیں عطا فرمائی ہے اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ اس میراث کو بزور قوت حاصل کر کے اس علاقے کے قدیم باشندوں کو اسی طرح نکال باہر کریں اور خود ان کی جگہ بس جائیں، جس طرح تیرہ سو برس قبل مسیح میں انھوں نے کیا تھا۔ پچاسی سالہ یہودی خاتون اَوی تال بن خورِین 1923ء میں جرمن شہر Eisenach میں پیدا ہوئیں۔ تب ان کا نام ایرِیکا فاکن ہائیم تھا۔ نو عمری ہی میں انہیں اپنے یہودی مذہب اور صیہونیت کے ساتھ لگاو پیدا ہو گیا تھا۔ جرمنی میں نازی سوشلسٹوں کے برسرِ اقتدار آنے کے تین سال بعد ہی اِس یہودی لڑکی نے جرمنی چھوڑنے اور فلسطین جانے کا فیصلہ کیا۔ "میں نے تیرہ سال کی عمر میں نقل مکانی کی اور یہاں آ کر فلسطینی شہریت اختیار کر لی۔ یہ 1936ء کی بات ہے۔” حائفہ کی بندرگاہ پر اترنے کے بعد اَوی تال جرمن تارکین وطن کے قائم کردہ قصبے کِیریات بیالِیک میں پہنچیں، جہاں نو عمر یہودیوں کے لئے ایک یوتھ ہوسٹل موجود تھا۔
جب نومبر 1947ء میں فلسطین کی تقسیم سے متعلق اقوامِ متحدہ کا فیصلہ سامنے آیا اور ایک سال بعد ریاست اسرائیل قائم ہوئی، تو اَوی تال یروشلم میں تھیں۔ اِسی دوران ان کی جرمن شہر میونخ سے تعلق رکھنے والے مذہبی فلسفے کے ماہر شالوم بن خورِین کے ساتھ شادی بھی ہو چکی تھی۔ اس زمانے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں:”تب یہاں جشن کا سا سماں تھا کہ اب ہماری اپنی ایک ریاست ہو گی۔ یہ بہت ہی چھوٹی سی ریاست تھی، لیکن ہم نے سوچا کہ چھوٹی سہی، پَر اپنی تو ہے”۔
دوسری جانب 14 مئی 1948ء کے دن سے ہی فلسطینیوں کی گھر بدری کا عمل شروع ہو گیا۔ وہ اِسے یومِ نقبہ یا آفت کا دِن قرار دیتے ہیں۔ اس روز جن فلسطینی خاندانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا، ان میں سے ایک خاندان فواض ابو سِتہ کا تھا، جو آج کل غزہ میں رہتے ہیں۔ "میرا تعلق ایک بدّو قبیلے سے ہے اور ہم بِیر شے وا کے علاقے میں رہا کرتے تھے، جس کی سرحدیں غزہ سے ملتی تھیں۔ لیکن جب انیس سو سینتالیس اڑتالیس کا دَور آیا تو دیکھتے ہی دیکھتے پورے ابو سِتہ قبیلے کو زبردستی اس گاوں سے نکال دیا گیا۔ اِس گاوں پر تین اطراف سے حملہ کیا گیا۔ قبیلے کے چار سو سے زیادہ اراکین نے بھاگ کر نواحی غزہ میں پناہ لی۔ یہیں پر 1953ء میں فواض کا جنم ہوا۔ اس کی پرورِش ایک ایسے مہاجر کے طور پر ہوئی، جسے امید تھی کہ ایک روز وہ اپنے قبیلے کے پرانے علاقے میں لَوٹ کر ضرور جائے گا۔ لیکن کئی برس جرمنی میں رہنے کے بعد، جہاں اس کی شادی بھی ایک جرمن خاتون سے ہوئی، فواض کی اپنے آبائی وطن واپسی کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔!
:تاریخ فلسطین و اسرائیل
یہ وہی مقامِ قبلہ اول ہے جس کی طرف رخ کر کے رسول اللہ نے ساڑھے چودہ برس تک نماز پڑھی ہے اور یہ وہی بنی اسرائیل ہیں جو تقریباً تیرہ سو برس قبل مسیح اس علاقے میں داخل ہوئے تھے اور دو صدیوں کی مسلسل کشمکش کے بعد بالآخر اس پر قابض ہو گئے تھے۔ بنی اسرائیل نے اُن قوموں کا قتل کرکے اس سرزمین پر اسی طرح قبضہ کیا تھا جس طرح انگریزوں نے سرخ ہندیوں (Red Indians) کو فنا کر کے امریکہ پر قبضہ کیا۔
آٹھویں صدی قبل مسیح میں اسیریا نے شمالی فلسطین پر قبضہ کرکے اسرائیلوں کا بالکل قلع قمع کر دیا اور ان کی جگہ دوسری قوموں کو لابسایا جو زیادہ تر عربی النسل تھیں۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے جنوبی فلسطین پر قبضہ کرکے تمام یہودیوں کو جلاوطن کر دیا۔ بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ہیکل سلیمانی (Temple of Solomon) کو جسے دسویں صدی قبل مسیح میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کرایا تھا، اس طرح پیوند خاک کر دیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ قائم نہ رہی۔
ایک طویل مدت کی جلاوطنی کے بعد ایرانیوں کے دور حکومت میں یہودیوں کو پھر سے جنوبی فلسطین میں آکر آباد ہونے کا موقع ملا اور انھوں نے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی۔ 70ء میں یہودیوں نے رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کی، جس کی پاداش میں بیت المقدس کے شہر اور ہیکل سلیمانی کو بالکل مسمار کر دیا گیا اور پھر ایک دوسری بغاوت کو کچل کر 135ء میں رومیوں نے پورے فلسطین سے یہودیوں کو نکال باہر کیا۔
اسلام کی آمد سے قبل یہ پورا علاقہ عربی قوموں سے آباد تھا، بیت المقدس میں یہودیوں کا داخلہ تک رومیوں نے قانوناً ممنوع کر رکھا تھا اور فلسطین میں بھی یہودی آبادی قریب قریب ناپید تھی۔ اس کے باوجود یہودیوں کا آج بھی یہ دعویٰ ہے کہ فلسطین ان کے باپ دادا کی میراث ہے، جو خدا نے انہیں عطا فرمائی ہے اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ اس میراث کو بزور قوت حاصل کر کے اس علاقے کے قدیم باشندوں کو اسی طرح نکال باہر کریں اور خود ان کی جگہ بس جائیں، جس طرح تیرہ سو برس قبل مسیح میں انھوں نے کیا تھا۔
اس حوالے سے مشہور یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون (Maimon Ides) نے اپنی کتاب "شریعت یہود” (The Code of Jewish Law) میں صاف صاف لکھا ہے کہ ہر یہودی نسل کا یہ فرض ہے کہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو ازسر نو تعمیر کرے۔ ہیکل سلیمانی کے متعلق یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ اسے 70ء میں بالکل مسمار کر دیا گیا تھا اور حضرت عمر کے زمانے میں جب بیت المقدس فتح ہوا، اس وقت یہاں یہودیوں کا کوئی معبد نہ تھا، بلکہ کھنڈر پڑے ہوئے تھے۔
یہ بات بھی تاریخ ہی ہمیں بتاتی ہے کہ رومیوں کے زمانے میں فلسطین یہودیوں سے خالی کرا لیا گیا تھا اور بیت المقدس میں تو ان کا داخلہ بھی ممنوع تھا۔ پچھلی تیرہ چودہ صدیوں میں یہودیوں کو اگر کہیں امن نصیب ہوا ہے تو وہ صرف مسلمان ملک تھے۔ ورنہ دنیا کے ہر حصے میں جہاں بھی عیسائیوں کی حکومت رہی، وہاں وہ ظلم و ستم کا نشانہ ہی بنتے رہے۔ یہودیوں کے اپنے مورخین خود اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی تاریخ کا سب سے زیادہ شاندار دور وہ تھا جب وہ اندلس میں مسلمانوں کی رعایا کی حیثیت سے آباد تھے۔
:اقوام متحدہ کا کردار
پہلی جنگ عظیم کے موقع پر ڈاکٹر وائز مین جو اس وقت یہودیوں کے قومی وطن کی تحریک کا علبردار تھا، انگریز حکومت سے اس نے وہ مشہور پروانہ حاصل کر لیا، جو اعلان بالفور کے نام سے مشہور ہے۔ اعلان بالفور کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی پانچ فیصد بھی نہ تھی۔ اس موقع پر لارڈ بالفور اپنی ڈائری میں لکھتا ہے: "ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صیہونیت ہمارے لیے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین میں اِس وقت آباد ہیں۔”
بالفور کی ڈائری کے یہ الفاظ آج بھی برطانوی پالیسی کی دستاویزات (Documents of British Policy)کی جلد دوم میں ثبت ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 1917ء میں یہودی آبادی جو صرف 25 ہزار تھی وہ پانچ سال میں بڑھ کر 38 ہزار کے قریب ہو گئی۔ 1922ء سے 1939ء تک ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی۔ جنگ عظیم دوم کے زمانے میں ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے تحاشہ فلسطین میں داخل ہونے لگے۔ صیہونی انجیسی نے ان کو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں فلسطین میں گھسانا شروع کر دیا اور مسلح تنظیمیں قائم کیں، جنھوں نے ہر طرف مار دھاڑ کر کے عربوں کو بھگانے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفاکی کی حد کر دی۔
اب ان کی خواہش تھی کہ فلسطین کو یہودیوں کا "قومی وطن” کی بجائے "قومی ریاست” کا درجہ حاصل ہو جائے۔ 1947ء میں برطانوی حکومت نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا۔ مطلب یہ تھا کہ مجلس اقوام (لیگ آف نیشنز) نے صیہونیت کی جو خدمت ہمارے سپرد کی تھی وہ ہم انجام دے چکے ہیں۔ اب آگے کا کام اس آنجہانی مجلس کی نئی جانشین اقوام متحدہ انجام دے۔ نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا۔ اس کے حق میں 33 ووٹ اور اس کے خلاف31 ووٹ تھے۔ دس ملکوں نے کوئی ووٹ نہیں دیا۔
آخر کار امریکہ نے غیر معمولی دباﺅ ڈال کر ہائیٹی، فلپائن اور لائیریا کو مجبور کر کے اس کی تائید کرائی۔ یہ بات خود امریکن کانگریس کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ یہ تین ووٹ زبردستی حاصل کیے گئے تھے۔ جیمز فورسٹال (Forestal) اپنی ڈائری میں لکھتا ہے :”اس معاملہ میں دوسری قوموں پر دباﺅ ڈالنے اور ان کو ووٹ دینے پر مجبور کرنے کے لیے جو طریقے استعمال کیے گئے وہ شرمناک کارروائی کی حد تک پہنچے ہوئے تھے۔”
:یوم نکبہ
تقسیم کی جو تجویز ان ہتھکنڈوں سے پاس کرائی گئی، اس کی رو سے فلسطین کا 55 فیصد رقبہ 33 فیصد یہودی آبادی کو، اور 45 فیصد رقبہ 67 فیصد عرب آبادی کو دیا گیا۔ حالانکہ اس وقت تک فلسطین کی زمین کا صرف 6 فیصد حصہ یہودیوں کے قبضے میں آیا تھا۔ یہودی اس تقسیم سے بھی راضی نہ ہوئے اور انہوں نے مار دھاڑ کر کے عربوں کو نکالنا اور ملک کے زیادہ سے زیادہ حصے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ آرنلڈ تائن بی اپنی کتاب A Study of History میں لکھتا ہے کہ: وہ مظالم کسی طرح بھی ان مظالم سے کم نہ تھے جو نازیوں نے خود یہودیوں پر کیے تھے۔ دیریا سین میں 9 اپریل 1948ء کے قتل عام کا خاص طور پر اس نے ذکر کیا ہے، جس میں عرب عورتوں، بچوں اور مردوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
عرب عورتوں اور لڑکیوں کا برہنہ جلوس نکالا گیا اور یہودی موٹروں پر لاﺅڈ اسپیکر لگا کر جگہ جگہ یہ اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ:”ہم نے دیریا سین کی عرب آبادی کے ساتھ یہ اور یہ کیا ہے، اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہو تو یہاں سے نکل جاﺅ”۔ ان حالات میں14 مئی 1948ء کو عین اس وقت جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطین کے مسئلہ پر بحث کر رہی تھی، یہودی ایجنسی نے رات کے دس بجے اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا اور سب سے پہلے امریکہ اور روس نے آگے بڑھ کر اس کو تسلیم کیا۔ حالانکہ اس وقت تک اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین میں اپنی قومی ریاست قائم کرنے کا مجاز نہ کیا تھا۔ اس اعلان کے وقت تک 6 لاکھ سے زیادہ عرب گھر سے بے گھر کیے جا چکے تھے اور اقوام متحدہ کی تجویز کے بالکل خلاف یروشلم (بیت المقدس) کے آدھے سے زیادہ حصے پر اسرائیل قبضہ کر چکا تھا۔ پس یہی ہے وہ منحوس دن جس کو تاریخ ِ فلسطین میں یوم نکبہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
:صورتحال کے پس منظر میں
انسان کی فطرت میں یہ بات پیوست ہے کہ وہ عزت اور وقار کے ساتھ جیئے، اگر ایسا نہ ہو تو وہ احساس کمتری کے مرض (Inferiority complex) میں مبتلا ہو جائے گا۔ عزت و وقار کی زندگی کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کے بنیادی حقوق صلب نہ کیے جائیں۔ سوشل سائنٹسٹ کہتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالٰی نے معاشرتی زندگی عطا کی ہے، وہ رہبانیت کا شکار نہیں ہو سکتا۔ اسی بات کو اسلام بھی زور دے کر کہتا ہے کہ معاشرے سے الگ تھلگ زندگی کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے۔ مزید یہ کہ معاشرے میں رہتے ہوئے بھی انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی زندگی کی ترغیب دی گئی اور اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ ص فرماتے ہیں:”تم مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے سے رحم کا معاملہ کرنے، ایک دوسرے سے محبت و تعلق رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی و معاونت کا سلوک کرنے میں ایسا پاﺅ گے جیسا کہ بدن کا حال ہے کہ جب بدن کا کوئی عضو دکھتا ہے تو بدن کے باقی اعضاء اس ایک عضو کی وجہ سے ایک دوسرے کو پکارتے ہیں اور بیداری و بخار کے تب و درد میں سارا جسم شریک رہتا ہے”۔ (بخاری و مسلم)۔
یہی بات اس طرح بھی کہی :” ایک خدا ایک رسول اور ایک دین کو ماننے کی وجہ سے سارے مسلمان ایک شخص کی مانند ہیں کہ اگر اس کی آنکھ دکھتی ہے تو اس کا سارا جسم بے چین ومضطرب ہو جاتا ہے اور اس کا سر دکھتا ہے تو پورا بدن تکلیف محسوس کرتا ہے، اسی طرح ایک مسلمان کی تکلیف کو سارے مسلمانوں کو محسوس کرنا چاہیے۔” (مسلم) لہذا فطری تقاضے کی بنیاد پر اور اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ہمارے لیے لازم ہوتا ہے کہ غاصب یہودیوں کے ناپاک منصوبوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ اُن کی چالاکیوں، عیاریوں اور متشددانہ ظلم و ستم کے خلاف ایک آواز ہو کر امت کو چاہیے کہ ان کا معاشی بائیکاٹ کریں۔
دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں پر مظالم ہو رہے ہیں، ان کا ساتھ دیں، اسلام کو اس کے حقیقی پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کریں، اس کے پیغام کو عام کریں اور اپنے قول و عمل سے شہادت پیش کریں، اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑائیں، اس سے معافی مانگیں اور دعائیں کریں اور ایک نئے عزم وحوصلے کے ساتھ اسلام کو دنیا پر نافذ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ یہی ہے اقتضائے وقت اور یہی ہے دنیا و آخرت میں سرخروئی اور کامیابی کی راہ!!