تباہ کن ہتھیاروں کی برآمدات کے لیے افریقی ممالک صہیونی ریاست کا اگلا ہدف ہیں جہاں ان ممالک کے ساتھ تل ابیب نے جنگی ہتھیاروں کی کئی بڑی بڑی ڈیلیں کی ہیں اور اربوں ڈالر مالیت کا اسلحہ فروخت کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں افریقی ملکوں کو اسرائیلی ہتھیاروں کی برآمدات، اس کے حجم اور خطے میں اس کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ مواد اسرائیل کے عبرانی اخبار ’ہارٹز‘ میں شائع اسرائیلی دفاعی تجزیہ نگار ایلی کوھین کے’ افریقی ملکوں میں اسرائیلی ہتھیاروں کی طلب میں اضافہ‘ کے عنوان سے شائع کیے گئے ایک مضمون سے ملا ہے۔
بدنامی پرمبنی ساکھ بہتر بنانے کا حربہ
اسرائیلی تجزیہ نگارایلی کوھین نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے 2016ء کے دوران چھ ارب 50 کروڑ ڈالر مالیت کا اسلحہ دوسرے ملکوں کو فروخت کیا۔ یہ رقم 2015ء کے دوران اسرائیلی دفاعی برآمدات سے حاصل ہونے والی رقم سے 80 کروڑ ڈالر زیادہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے گذشتہ برس مجموعی طور پر برآمد کردہ اسلحہ میں 70 فی صد ہتھیار افریقی ملکوں کو فروخت کیے گئے ہیں اور باقی تمام ملکوں کو کل 30 فی صد ہتھیار فروخت کیے گئے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ محکمہ دفاع کی ہتھیاروں کی فروخت کے حوالے سے اگلی توجہ افریقا کے بعد ایشیائی ممالک پر مرکوز ہے اور بھارت میں ان میں سر فہرست ہے۔ اسرائیل بھارت کو جدید ترین جنگی ٹکنالوجی فراہم کررہا ہے۔ گذشتہ برس بھارت اور اسرائیل کے درمیان 2.6 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے ہوئے۔ 2015ء کی نسبت یہ رقم 30 کروڑ ڈالر زیادہ ہے۔
حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے اسرائیل سے ٹینک شکن ’اسپائک‘ میزائل خریدنے کا اعلان کیا ہے تاہم بھارتی پارلیمنٹ نے اس ڈیل کو دو سال کے لیے موخر کردیا ہے۔
سال 2016ء کے دوران اسرائیل نے افریقی ملکوں کو دو ارب 75 کروڑ ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا۔ شمالی امریکا کو 1.2 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے گئے جب کہ لاطینی امریکا کو 550 ملین ڈالر کا اسلحہ برآمد کیا گیا۔
سال 2015ء میں افریقی ملکوں نے اسرائیل سے 163 ملین ڈالر کے جنگی ہتھیار خرید کیے تھے۔ سال 2012ء اور 2015ء کے دوران افریقا نے مجموعی طور پر اسرائیل سے 200 ملین ڈالر کے ہتھیار خریدے۔ 2016ء کے دوران اسرائیل کی یورپی ملکوں کے لیے دفاعی برآمدات کا حجم 1.8 کروڑ ڈالر رہا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل دنیا بھر میں اسلحہ کی فروخت کے لیے فلسطین میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی وجہ سے گرتی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
جعلی احتجاج
ایلی کوھین کا کہنا ہے کہ یورپی ملکوں میں اسرائیلی اسلحہ کی خریداری میں اضافے کے دیگر اسباب میں ایک دہشت گردی کا عنصر بھی شامل ہے۔ اسرائیل یورپی ملکوں کو دہشت گردی کے خطرات بڑھا چڑھا کر انہیں اسلحہ کی خریداری پر قائل کررہا ہے۔ داعش کی طرف سے بڑھتے خطرات اور پناہ گزینوں کے بحران کے باعث بھی یورپی ممالک اسرائیل سے ہتھیار خرید رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ایک سینیر جنرل نے حال ہی میں ایک بیان میں بتایا تھا کہ اسرائیلی فوج دنیا کے دوسرے ملکوں کی افواج کے ساتھ معاہدے کررہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم دنیا کے ساتھ تین امور دہشت گردی، سرحدوں کے مسائل اور سائبر حملوں کے خطرات کی بناء پر دفاعی سودے کرتے ہیں۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ افریقی ملکوں کو اسلحہ کی اندھا دھند فروخت پر انسانی حقوق کے حلقوں اور اسرائیلی پارلیمنٹ کے ارکان کی طرف سے حکومت کو کڑی تنقید کا بھی سامنا ہے۔
گذشتہ برس پارلیمنٹ میں ایک بل بھی پیش کیا گیا تھا جس میں حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ افریقی ملکوں کو اسلحہ کی فروخت روکے۔ یہ بل یہودا گلیک کی جانب سے پیش کیا گیا جس پر تما زندبرگ، عرب اتحاد کے رکن دووف حنین، موتی یوگیف اور دیگر کے دستخط ثبت تھے۔
گذشتہ برس اسرائیلی اخبار ’ہارٹز‘ نے انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل نے جنوبی سوڈان کو بھی مانیٹرنگ اور جاسوسی کے آلات کے ساتھ ساتھ بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود فروخت کیا ہے۔ حالانکہ 2016ء کے دوران اسرائیل نے اقوام متحدہ میں یہ عہد کیا تھا کہ وہ جنوبی سوڈان کو مہلک ہتھیار فروخت نہیں کرے گا۔
اسرائیل کے دفاعی تجزیہ نگار دوبی لاوی کا کہنا ہے کہ تل ابیب نسل پرستی میں ملوث ممالک کو اسلحہ فروخت کرنے پر یقین نہیں رکھتا۔
موت بانٹنے والی کمپنیاں
اسرائیل میں دفاعی مقاصد کے پیش نظر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری میں پیش پیش کمپنیاں بھی افریقی ملکوں کے ساتھ بالواسطہ یا براہ راست سودے بازی کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر 2016ء کے دوران اسرائیل کی دفاعی آلات ساز کمپنی ’البیٹ‘ نے فلپائن کو بڑی مقدار میں توپ کے گولے فروخت کیے۔’رفائیل‘ نے فلپائن کو ‘اسپائک‘ راکٹ اور میزائل فروخت کیے جب کہ سنگا پور کی وزارت دفاع نے اعتراف کیا کہ اس نے اسرائیل کی ’الٹا‘ کمپنی سے میزائل لانچنگ پیڈ خرید کئے ہیں۔
سال2016ء کے دوران اسرائیلی دفاعی کمپنیوں نے Â جنگی طیاروں اور دیگر جنگی آلات کو اپ گریڈ کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔ خاص طور پر گذشتہ برس ’ہنڈوراس‘ طیاروں کو مزید اپ گریڈ کیا گیا۔
البیٹ کمپنی نے تھائی لینڈ فوج کے زیراستعمال ٹینکوں کو اپ گریڈ کرنے میں مدد کی۔ گذشتہ برس کے سودوں میں اجرت پر طیاروں کے حصول کے ساتھ ساتھ ’ہارون1‘ Â اور جرمنی کے ایئر بس کو اپ گریڈ کیا گیا۔ ان طیاروں کو بعد ازاں مالی میں بھی استعمال کیا گیا۔
’البیٹ‘ نامی اسرائیلی دفاعی کمپنی نے 2016ء کے دوران یورپی ملکوں کی افواج کے ساتھ جاسوسی کے آلات کے سودے کیے جن کی مالیت 30 ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس کمپنی نے یورپی ملکوں سے مزید 40 ملین ڈالر کے جدید مواصلاتی آلات کے ٹینڈر حاصل کیے ہیں۔ ’رفائیل‘ کمپنی نے 100 ملین ڈالر کے آلات فروخت کیے ہیں۔
اسرائیلی وزارت دفاع کے مطابق وسطی ایشیائی ریاست آذر بائیجان کو’فلسن‘ کمپنی نے 2016ء کے دوران Â گاڑیاں اور باراک 8 میزائل فروخت کیے ہیں۔ یہ میزائل جنگی جہازوں پر بھی نصب کیے جا سکتے ہیں۔ آذر بائیجان نے اسرائیل سے’اسپائک‘ میزائل، ڈرون طیارے، خود کش ڈورن’ھاروپ‘ سمیت اگلے پانچ سال تک پانچ ارب ڈالر کا اسلحہ کی خریداری کے معاہدے کیے ہیں۔