غزہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) اسرائیلی ریاست کی مجرم لیڈرشپ اور تحریک فتح کے نام نہاد زعماء قوم کے غزہ کی پٹی کےعوام کےحوالے سے افکاراور خیالات کا تقابل کیاجائے تو دونوں میں غیرمعمولی مماثلت پائی جاتی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی، تحریک فتح اوراسرائیلی ریاست غزہ کے عوام کو انتقامی کارروائیوں کی بھینٹ چڑھانے میں پیش پیش ہیں۔
اسرائیل کے سابق وزیراعظم آنجہانی اسحاق رابین نے مرنے سے قبل کہا تھا کہ میری تمنا ہے کہ میں ایک دن صبح نیند سے بیدار ہوں تو غزہ کا علاقہ سمندر نے نگل لیا ہو۔ رابین مرگیا مگر غزہ کے عوام آج بھی صبرو ثبات اور ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہیں۔اسرائیلی ریاست کے جبروت اور تشدد کے باوجود غزہ کے عوام پورے قد کےساتھ کھڑے ہیں۔
اسحاق رابین کا خواب پورا نہ ہوا اور وہ غزہ کے عوام کو سمندر میں ڈوبتا دیکھنے کی تمنا ساتھ لیے جہنم رسید ہوگیا۔
حال ہی میں تحریک فتح کے ایک رہنما عزام الاحمد نے بھی غزہ کےعوام کے بارے میں وہی کچھ کہا جو اس سے قبل رابین کہہ گیا تھا۔ تحریک فتح کے رہنما نے کہا کہ غزہ کے عوام کا دانہ پانی یہاں تک کہ ہوا بھی بند کردی جائے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کا علاقہ باغیوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی غزہ کےعلاقے کو باغی صوبہ قرار دے۔
عزام الاحمد غزہ کے عوام کے خلاف نفرت اور انتقام پر مبنی بیان دیتے ہوئے یہ فراموش کرگئے کہ غزہ کے عوام نے قوم کے لیے کتنی قربانیاں دی ہیں اور مسلسل دیتے چلے آ رہے ہیں۔عظیم حق واپسی مارچ جو ایک سال سے جاری ہے میں اب تک تین سو قیمتی جانیں قربان کرنے اور ہزاروں زخمی اور معذور ہونے والے بھی غزہ کے عوام ہیں۔ گذشتہ 12 سال سے اسرائیل کی ناکہ بندی اور دو سال سے فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی سیاست کا مردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں۔
رابین کا غزہ میں ڈوب جانے کا خواب پورا نہیں ہوا۔ ایسے عزم الاحمد کا غزہ کے عوام کے بارے میں نفرت پرمبنی عزائم بھی پورے نہیں ہوں گے۔غزہ کے عوام اسرائیلی ریاست کی انتقامی کارروائی کا شکار نہیں ہوئے اور نہ ہی طاقت کے استعمال نے غزہ کے عوام کو جھکایا جا سکا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار عصام شاور نے عزام الاحمد کے متنازع اور نفرت انگیز بیان کےرد عمل میں ’’فیس بک‘‘ پر لکھا کہ ’’عزام الاحمد غزہ کے لوگوں کے خلاف جتنا مرضی زور لگا لیں وہ اللہ کریم کے فضل وکرم سے غزہ کے عوام کو کوئی نقصان پہنچا سکتے‘‘۔
تحریک فتح کے اصلاح پسند رہنما اور تجزیہ نگار عبدالحمید المصری کا کہنا ہے کہ ’’عزام الاحمد غزہ کے عوام کے خلاف نفرت انگیز بیان دینے والے کون ہوتےہیں۔انہوں نے اپنے بیان سے غزہ کے ساتھ اپنے حسد اور نفرت کا ثبوت پیش کردیا ہے‘‘۔
اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ عزام الاحمد فلسطینی دھڑوں کے درمیان امن بات چیت اور مصالحتی کوششوں میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے عوام تین عشروں سے بدترین مصائب اور آلام کا پامردی اور بہادری کے ساتھ سامنا کررہے ہیں۔
عوامی محاذ برائے آزاد فلسطین کے رہنما محمود خلف نے عزام الاحمد کے بیان کے رد عمل میں کہا کہ غزہ کو باغی صوبہ قرار دینا اور دانہ پانی اور ہوا بند کرنے کا مطالبہ کرنا بدترین دشمنی اور مصالحتی مساعی کی نفی کے مترادف ہے۔
غزہ کے عوام نے 2005ء میں صیہونی دشمن کو نکال باہر کیا۔ عزم الاحمد بھول گئے کہ شیرون نے غزہ کے بارے میں کہا تھا کہ وہ غزہ میں موجود نستاریم صیہونی کالونی کو خالی نہیں کریں گے۔ غزہ کے عوام نے شیرون اور اس کی سپاہ کو غزہ سے بے دخل کردیا۔ یہ غزہ کے مجاہدین نے جنہوں نے ایک اسرائیلی فوج کو جنگی قیدی بنا کر اس کےبدلے میں ایک ہزار سے زائد فلسطینیوں کو رہاکرایا۔
اس وقت بھی غزہ کےمجاہدین نے دشمن کے چار فوجیوں کو جنگی قیدی بنا رکھا ہے۔ انہیں بھی قیمت وصول کیے بغیر رہا نہیں کیا جائے گا۔
اسلامی جہاد کے رہنما خضر حبیب کا کہنا ہے کہ عزم الاحمد غزہ کے عوام کا پانی اور ہوا بند کرنے کی طاقت نہیں کرتے۔
غزہ کے عوام نے تین تباہ کن جنگوں کا سامنا کیا مگر وہ دشمن کے سامنے نہیں جھکے۔ عزام الاحمد غزہ کے عوام کی ان قربانیوں کو بھی کتنی تیزی کے ساتھ بھول گئے۔ انہوں نے غزہ کے عوام پر پابندیاں عائد کرانے میں محمود عباس کا ساتھ دیا۔ عزام الاحمد غزہ کے عوام پر جن پابندیوں کا اشارہ دے رہےہیں وہ پہلے ہی عائد کی جاچکی ہیں۔
(بشکریہ مرکز اطلاعات فلسطین )