غزہ(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)فلسطینی مجاہدین نے یہودی ریاست کے جرائم کا زبردست جواب دیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ یہ ریاست اپنے نقصانات کو خفیہ رکھے ہوئے ہے اور اپنے نقصانات کی رپورٹ شائع کرنے کی جرات نہيں رکھتی۔
سنہ ۲۰۰۰ یہودی ریاست کے زوال کا پہلا سال تھا جس کے بعد جہاں بھی اس ریاست نے حملہ کیا ہے اسے منہ توڑ شکست نصیب ہوئی ہے۔ غزہ کے محصور مسلمانوں پر بھی کئی مرتبہ بخت آزمائیوں کے بعد اسے شکست کے سوا کچھ نہیں ملا ہے تو خیال یہ ہے کہ دوسرے ممالک سے آکر سکون کی زندگی کے وعدوں پر فلسطینیوں کی مٹی پر آبسنے والوں کو آج پہلے سے کہیں زیادہ یہ حق حاصل ہے کہ وہ معکوس ترک وطن کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں؛ گوکہ عالمی سطح پر چلی اور ارجنٹائن کے جنوب میں پیٹاگونیا کا وسیع و عریض علاقہ فلسطین سے یہودیوں کے بھاگنے کے بعد کے لئے فراہم کرنا شروع کیا ہے جس کے ضرورت دوسری مختصر جنگ اور مفصل شکست کے بعد مزید شدت سے محسوس ہورہی ہوگی۔
غزہ شاید دنیا کا گنجان آباد ترین علاقہ ہے جہاں ۲۰ لاکھ کے قریب انسانوں کو ایک عشرے سے قلعہ بند رکھا گیا ہے لیکن ان کے ہم عقیدہ مسلمانوں میں وہ جو کوئی فعال کردار ادا کرسکتے ہیں، مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہیں جس کی وجہ سے یہ گنجان آبادترین جیلخانہ مسلسل بحال ہے اور اس کی دیواریں توڑنے کے لئے اس جیلخانے کے قیدیوں ہی کو کچھ کرنا پڑتا اور وہ خون کا نذرانہ دے کر صدی کی ڈیل کا بھی مقابلہ کررہے ہیں، فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لئے بھی لڑ رہے ہیں اور صدی کی ڈیل کی لئے شروع کی جانے والی جنگوں سے بھی نمٹ رہے ہیں اور انہیں اپنی کامیابی کا یقین ہے جبکہ اس کامیابی کے ہیرو فلسطینی ہونگے اور اس کے زیرو کردار عرب اور مسلم حکمران ہونگے جو یہودی ریاست کے مظالم بڑھنے پر اس ریاست کے ساتھ تعلقات جوڑنے کے لئے مسابقت میں شرکت کررہے ہیں۔ یہ حملہ بھی رمضان کے بعد منظر عام پر آنے والے امریکی صدر کے داماد اور سعودی ولیعہد کے باہمی معاہدے “صدی کی ڈيل” کے لئے راستہ ہموار کرنے کے لئے تھا جو رمضان سے پہلے انجام پایا اور غزہ کے قیدیوں نے اسے ناکام بنایا۔
غزہ کا یہ جیلخانہ عرصہ ۷۰ سال سے محصور ہے اور ۷۰ سال سے کیل کانٹے سے لیس دشمن کے سامنے ڈٹا ہوا ہے جبکہ عرب ممالک یکے بعد دیگرے شکست کھا کر اسی دشمن کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ غزہ نہ صرف اپنا دفاع کررہا ہے بلکہ آج اس کی طاقت میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ وہ اسرائیلی دشمن کا چین چھین رہا ہے اور جارح و غاصب دشمن کو اپنے گھروں میں بھی چین و سکون کی نیند سونے سے محروم کرچے ہیں۔ دو دن پہلے جب اسرائیلی دشمن نے حملہ کیا تو اسے امید تھی کہ رمضان کے بعد صدی کی ڈیل کا اعلان ممکن ہو ہی جائے گا لیکن غزہ سے ملنے والی خبریں کچھ اور بتا رہی ہیں۔ غزہ کے فلسطینیوں کی شرائط پر جنگ بندی سے پہلے غزہ کے باسیوں نے سینکڑوں میزائل فلسطین کے ان مقبوضہ علاقوں کو طرف روانہ کئے تھے جہاں غاصب یہودیوں کا بسیرا ہے اور انھوں نے اپنے گرد آئرن ڈوم یا آہنی گنبد نامی میزائل و فضائی دفاعی دیوار نصب کررکھی ہے مگر یہ دیوار ایک بار پھر اور اس باز کچھ زیادہ زور سے گر گئی؛ صیہونیوں نے دعوی کیا کہ آئرن ڈوم نے سینکڑوں میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کردیا ہے مگر فلسطینیوں کے میزائل گویا صہیونیوں کے ان دعؤوں پر خندہ زن ہیں اور ان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
ایک صہیونی ذریعے نے اعتراف کیا ہے کہ غزہ کی پٹی سے ۶۵۰ میزائل داغے گئے تھے جن میں سے ۱۷۰ کو تو مارگرایا گیا مگر باقی اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اس ذریعے کے اعترافات کے مطابق، فلسطینیوں کے میزائلوں نے اسرائیل کا جعلی دبدبہ ایک بار پھر خاک میں ملا دیا۔
العہد اخباری ویب گاہ نے یہودی ریاست کے چینل ۱۲ کے حوالے سے کہا ہے کہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ غزہ پر حملے اور حالات کی نزاکت کے اس مرحلے کے ۳۱ گھنٹے بعد ۶۵۰ سے زائد میزائلوں نے مقبوضہ سرزمینوں کو نشانہ بنایا ہے اور میزائلوں کی یہ تعداد ان تمام میزائلوں سے زیادہ ہے جو فلسطینیوں نے گذشتہ لڑائی میں استعمال کئے تھے۔
چینل ۱۲ کے مطابق، جاری لڑائی کا آغاز ہفتے کے دن صبح ۱۰ بجے سے ہوا تھا جس کے بعد اب تک غزہ سے ۶۵۰ میزائل مقبوضہ سرزمینوں پر داغے گئے ہیں اور آئرن ڈوم سسٹم صرف ۱۷۳ میزائلوں کو مار گرانے میں کامیاب ہوا ہے اور ۳۵ میزائل صہیونیوں کے رہائشی علاقوں پر گرے ہیں۔
واضح رہے کہ فلسطینیوں کا ایک میزائل شاباک ایجنسی کے سابق سربراہ کے گھر کے صحن میں گر کر دھماکے سے پھٹ گیا ہے۔
غاصب یہودی ریاست کے عسکری ترجمان رونین منلیس (Ronen Manelis) نے کہا ہے کہ غاصب ریاست کی افواج نے غزہ میں ۲۵۰ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
چینل ۱۲ نے کہا ہے کہ مختلف علاقوں میں صہیونی نوآبادیوں کے ۴ باشندے مارے گئے ہیں جبکہ برزیلا اسپتال میں پانچ افراد شدید زخمی حالت میں زیر علاج ہیں۔ بعض ذرائع نے ۵ صہیونیوں کی ہلاکت کی خبر دی ہے۔ صہیونی ذرائع فوجی اور سرکاری ٹھکانوں کو پہنچنے والے مالی اور جانی نقصانات کی طرف کوئی اشارہ نہیں کررہے ہیں۔
اگر یہودی ریاست میں جرات ہے تو اپنے نقصانات کے بارے میں رپورٹ شائع کرے
لیکن مذکورہ بالا رپورٹ صہیونیوں سے نقل ہوئی ہے جبکہ فلسطینی مزاحمت کی جماعتوں نے صہیونیوں کی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دینے کے بعد، کہا ہے کہ غاصب ریاست صحیح اعداد و شمار شائع کرنے سے کتراتی ہے اور ان وسیع نقصانات کی تصاویر شائع کرنے کے لئے تیار نہیں ہے جو فلسطینیوں کے جواب کے نتیجے میں ان کی قسمت میں آئے ہیں۔
فلسطینی مزاحمت میں شامل جماعتوں کے آپریشن روم نے للکار کر کہا ہے کہ اگر صہیونی دشمن میں ذرہ برابر جرات ہے تو اپنے جانی اور مالی نقصانات کی صحیح رپورٹ شائع کرے۔
فلسطین الیوم نے جہاد اسلامی کے عسکری شعبے کے ایک کمانڈر کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہودی ریاست کا سینسرشپ اور نگرانی کا ادارہ اگر سچا ہے تو عسقلان سمیت ان علاقوں میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کی تفصیلات شائع کرے جو مزاحمت تحریک کے میزائلوں کا نشانہ بنے ہیں۔
انھوں نے کہا: فلسطینی مزاحمت نے دشمن کے جرائم کے جواب میں نہایت تباہ کن میزائلوں سے دشمن کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جو حال ہی میں تیار کئے گئے ہیں۔
ادھر اسلامی مزاحمت تحریک “حماس” نے اعلان کیا ہے کہ اس نے بیت حانون کے مشرق میں ایک صہیونی عسکری گاڑی کو نشانہ بنایا ہے جس میں متعدد صہیونی فوجی موجود تھے اور اس کاروائی کی ویڈیو بھی نشر کی گئی ہے۔
فلسطین الیوم نے لکھا ہے کہ غزہ کے شمال مشرق میں ایک ہی جگہ یہودی ریاست کی ایک فوجی گاڑی پر گائیڈڈ راکٹ لگنے سے تین فوجی مارے گئے ہیں۔
فلسطینیوں کی کامیابی کا اعتراف
ادھر صہیونی ماہرین کے ساتھ ساتھ، صہیونی ریاست کے حامی ذرائع ابلاغ نے بھی اپنے اسرائیلی دوستوں کی شکست فاش کا اعتراف کیا ہے۔ یہاں تک کہ بی بی سی نے فلسطینی میزائلوں کے مقابلے میں آئرن ڈوم کی ناکامی کا اعلان کیا اور انگریزی بادشاہت سے منسلک مبصر نے کہا کہ “فلسطینیوں کے راکٹ حملے بڑے کارآمد رہے اور اسرائیل کا آئرن ڈوم سسٹم ان کا راستہ روکنے میں ناکام رہا ہے اور بہت سارے راکٹ صہیونیوں کے رہائشی علاقوں پر گرے ہیں؛ اور اگر یہ راکٹ گائیڈڈ ہوتے تو اسرائیل کو بہت زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا”۔
ادھر حماس کے ترجمان عبداللطیف القانوع نے کہا ہے کہ ہر وہ جنگ بندی جو غاصبوں کو غزہ کا محاصرہ اٹھانے کا پابند نہ کرے، نا پائیدار ہوگی اور حالات ناقابل پیشگوئی اور دھماکہ خیز رہیں گے۔
فلسطینی مزاحمت کے مشترکہ آپریشن روم نے زور دے کر کہا کہ غاصبوں کے خلاف جنگ اس وقت تک نہیں رک سکے گی جب تک کہ وہ فلسطینی ملت کے جائز مطالبات کو مثبت جواب نہيں دیں گے۔
لبنان کی تحریک اصلاح و وحدت کے سربراہ شیخ ماہر عبدالرزاق نے یہودی ریاست کے جرائم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا: غزہ کے عوام کی جرات اور استقامت ہم سب کے لئے باعث فخر ہے اور ہم امت مسلمہ کی فتح اور مسلمانوں کے مسائل کے حل کی راہ میں غزہ کے عوام کی ثابت قدمی اور شجاعت پر فخر کرتے ہيں اور ان سے کہتے ہیں: “اے غزہ کے مجاہدو! اپنے میزائلوں کو غاصب صہیونیوں کے سروں پر برسا دو، کیونکہ یہ میزائل ہماری امت کے لئے باعث فخر اور فتح کا سبب ہیں۔
شیخ ماہر نے قدس کو غصب کرنے والے یہودیوں کی جارحیتوں اور جرائم کے آگے عرب بادشاہوں اور حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی کو غاصب صہیونی دشمن کے ساتھ عرب حکمرانوں کی ساز باز اور ذلیلانہ مفاہمتوں کا نتیجہ قرار دیا اور ان کی شدید مذمت کرتے ہوئے ہوئے کہا: آج غزہ کے عوام تمام عربوں اور مسلمانوں کی طرف سے جہاد کررہے ہیں۔
غاصب یہودی ریاست ـ جس کو آج امریکہ، یورپ اور علاقے کے جاہلی دور کے حکمرانوں کی حمایت بھی حاصل ہے ـ کی پےدرپے ناکامیاں سیدالمقاومہ سید حسن نصراللہ کے اس قول کی یاددہانی کروا رہی ہیں جو انھوں نے لبنان اور غزہ پر ۳۳ روزہ اور ۱۱ روزہ جنگوں میں اس ریاست کی بدترین شکست کے بعد کہا تھا اور وہ یہ کہ “اسرائیل کا گھر مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ سست ہے”۔ (۱) یہودی ریاست ـ جو مسلم اقوام کی لٹی ہوئی دولت کے سہارے اپنی فوج کو دنیا کی طاقتور ترین فوج سمجھتی ہے ـ ایک بار پھر فلسطین کی محصور قوم کے خالی ہاتھوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی ہے اور ایک بار پھر ثابت ہوچکا ہے کہ “مستضعفین کی مزاحمت اور پامردی کسی بھی اوزار، وسیلے اور ہتھیار سے زیادہ طاقتور ہے”۔