عالمی(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)الیکشن ہارنے کے بعد کانگریس کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں جنرل سیکرٹری موہن پرکاش نے دعویٰ کیا کہ کانگریس کو ہرانے میں موساد ملوث ہے اور موساد ۲۰۰۹ء سے ہی آر ایس ایس کے ساتھ مل کر بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت میں بننے اتحاد یونائیڈ پروگریسو الائنس (یو پی اے) کو کامیاب کرانے کے لیے گٹھ جوڑ کرچکی تھی۔
موہن پرکاش کا یہ دعویٰ کسی دھماکے سے کم نہیں تھا، اور اس پر بھارتی میڈیا بھی چونک اٹھا۔ پھر جب موہن پرکاش سے اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مزید کچھ کہنے سے معذرت کرلی۔ موہن پرکاش کا کہنا تھا کہ اس قسم کی بحث پارٹی فورم کے لیے ہے عوامی سطح پر یہ باتیں نہیں ہوسکتیں۔ اُس وقت تو میڈیا میں موہن پرکاش کے دعوے کا مذاق اڑایا گیا، لیکن اس بار بھارتی انتخابات میں اسرائیل کے کچھ نقوش ضرور موجود ہیں۔
بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے جولائی ۲۰۱۷ء میں اسرائیل کا دورہ کیا جو کسی بھی بھارتی وزیرِاعظم کا پہلا دورہ تل ابیب تھا۔ نریندر مودی اس سے پہلے بھی ۲۰۰۶ء میں بحیثیت وزیرِاعلیٰ گجرات تل ابیب کا دورہ کرچکے ہیں۔ اس دورہ میں بھی نریندر مودی نے یہودی ریاست اور اس کے عوام کی بڑھ چڑھ کر تعریف و توصیف کی تھی۔ وزیرِاعظم کی حیثیت سے نریندر مودی نے دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کو بڑھانے پر کام کیا اور اس وقت اسرائیل بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔
پاکستان کے ساتھ بھارت کی حالیہ کشیدگی اور نریندر مودی کی کشمیر پالیسی پر بھی اسرائیل کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ نریندر مودی نے بالاکوٹ حملے کے لیے بالکل ویسا ہی جواز گھڑا جو اسرائیل غزہ پر حملے کے لیے گھڑتا آیا ہے یعنی دہشتگرد کیمپوں کی موجودگی کا دعویٰ۔ کشمیر کے حوالے سے بی جے پی نے اس بار انتخابی منشور میں جو پالیسی بیان کی ہے وہ بھی فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضے کی پالیسی کی طرح ہے۔
بی جے پی کے منشور میں کہا گیا کہ کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کرنے اور کشمیر میں غیر کشمیریوں کو جائیداد خریدنے اور کاروبار کی اجازت کے لیے بھارتی آئین سے آرٹیکل ۳۷۰ اور آرٹیکل ۳۵ اے نکال دیے جائیں گے۔ بی جے پی کی اس پالیسی کو بھارت نواز سیاستدان فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے فلسطین سے مماثلت دی ہے۔ فاروق عبداللہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مودی ایسا کریں، ہمیں بھارت سے آزادی کا جواز مل جائے گا۔
پاکستان کے خلاف جارحیت کے لیے بھارتی فضائیہ نے اسرائیلی ساختہ بم اور ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسی جارحیت کو بھارت کی برتری اور کامیابی بتا کر نریندر مودی ووٹ مانگ رہے ہیں۔ نریندر مودی نے انتخابی ریلی سے خطاب میں کہا کہ نئے ووٹرز اپنا پہلا ووٹ بالاکوٹ میں مرنے والے فوجیوں اور پاکستان کے خلاف لڑنے والوں کے نام کریں۔
۲۰۱۴ء میں بھارت کے عام انتخابات میں موساد نے کوئی مداخلت کی یا نہیں؟ اس بارے میں موہن پرکاش ہی بتا سکتے ہیں لیکن اس الیکشن میں مودی کے انتخابی پٹاری میں بہت کچھ اسرائیل سے درآمدہ اور کشید کردہ ہے۔
اسرائیل میں بنجمن نیتن یاہو پانچویں مدت کے لیے وزیرِاعظم بننے کو ہیں اور ان کی انتخابی کامیابی پر فلسطین کے مذاکرات کار صائب ارکات کا ردِعمل مشرق وسطیٰ میں امن پر پڑنے والے اثرات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ صائب عرقات نے کہا کہ اسرائیلی عوام نے ثابت کردیا کہ وہ امن نہیں، صرف زمینوں پر قبضے چاہتے ہیں۔
بھارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پولنگ مکمل ہوچکی۔ ۷ مراحل میں پولنگ کے بعد ۲۳ مئی کو انتخابی نتائج سامنے آئیں گے، تاہم ۴ مختلف سروے نتائج بتاتے ہیں کہ نریندر مودی دوسری مدت کے لیے وزارتِ عظمیٰ کے مضبوط امیدوار ہیں۔ بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے ۲۷۲ نشستیں جیت سکتا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں بی جے پی نے اکیلے ۲۸۲ نشستیں جیتی تھیں اور این ڈی اے کی کل نشستیں ۳۳۶ ہوگئی تھیں۔
اگرچہ ۲۷۲ نشستوں کا مطلب پہلے سے کمزور حکومت ہے لیکن نریندر مودی کا دوسری بار اقتدار میں آنا اس خطے اور کشمیر کے لیے کیسا ہوگا؟ اس کا جواب بنجمن نیتن یاہو کی کامیابی پر صائب عرقات کے جواب میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔
وزیرِاعظم عمران خان نے غیر ملکی صحافیوں کے گروپ سے انٹرویو میں امید ظاہر کی ہے کہ نریندر مودی کی دوبارہ کامیابی کی صورت میں مسئلہ کشمیر کے حل ہونے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ وزیرِاعظم عمران خان کو یہ امید کس نے دلائی یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔
نریندر مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا تو بھارت کے قوم پرست حلقوں اور بی جے پی نواز میڈیا کا کہنا تھا کہ بھارت کو بہت پہلے ہی اقلیتوں کو خوش رکھنے کی پالیسی ترک کرکے خارجہ پالیسی ترتیب دینی چاہئے تھی اور نریندر مودی کا تل ابیب جانے کا فیصلہ بھارتی خارجہ پالیسی کی سمت درست کردے گا۔ ہندو قوم پرستوں کا اسرائیل سے رومانس بھی فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے گئے تل ابیب کے رویے کی بنیاد پر ہے اور اب بی جے پی بھی اسرائیل کی فلسطین پالیسی کشمیر میں نافذ کرنے کے درپے ہے۔
بنجمن نیتن یاہو اور نریندر مودی کی خارجہ پالیسی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا حق تسلیم کرچکے ہیں اور اس کے لیے وہ بین الاقوامی قانون کو بھی خاطر میں نہیں لائے۔ صدر ٹرمپ اسرائیلی وزیرِاعظم کی فلسطینی زمین پر قبضے کی پالیسی کی بھی حمایت کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ ایک عرصے سے امن منصوبہ جلد پیش کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ ممکنہ طور پر اس امن منصوبے میں فلسطین ایک بے دست و پا ننھی منی ریاست ہوگا لیکن اس سے پہلے اسرائیل کو فلسطین کی زمینوں پر قبضے کی چھوٹ دی گئی ہے تاکہ مسئلہ حل کرتے وقت فلسطین کو کچھ رعایت دینے کا تاثر پیدا کیا جاسکے۔
بھارت اور اسرائیل کبھی بھی نظریاتی طور پر ایک جیسی ریاستیں نہیں رہیں لیکن ہندوتوا اور صہیونیت کا گٹھ جوڑ انہیں قریب لا رہا ہے۔ اسرائیلی وزیرِاعظم نے نئی دہلی کے دورے کے دوران ممبئی حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی اور اسرائیلی دہشتگرد حملوں کا درد جانتے ہیں، ہم پلٹ کر حملہ کریں گے، ہم شکست نہیں مانیں گے۔ نیتن یاہو کے الفاظ بی جے پی کی ترجمانی ہیں۔
بی جے پی اور لیکود پارٹی کی ایک اور مشترکہ بات معاشی اور سیاسی ایشوز کو بنیاد بنانے کے بجائے بیرونی خطرے کی دہائیاں دے کر الیکشن میں اترنا ہے۔ نریندر مودی اور نیتن یاہو دشمنوں کا خوف پیدا کرکے ووٹروں کو اکٹھا کرتے ہیں اور ان کا مخالف سیاستدان غدار قرار پاتا ہے۔
نریندر مودی اور بنجمن نیتن یاہو کا نیا دورِ حکومت صہیونیت اور ہندوتوا کو نہ صرف قریب لائے گا بلکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی بنیاد بھی انہی نظریات پر مضبوط کرنے کی کوشش ہوگی۔ ہندو قوم پرست تاریخ کو توڑ مروڑ کر مسلمانوں کے ظلم بیان کرتے اور اسی پر اپنے نظریات استوار کرتے آئے ہیں۔ نیتن یاہو کی لیکود پارٹی بھی ایسی مظلومیت پر قوم پرستی کے جذبات ابھارتی ہے۔ مودی کی دوسری مدت میں بھارت کے لبرل اور جمہوریت پسند حلقوں کی آوازیں دب جانے کا خدشہ ہے اور نریندر مودی اسرائیلی ہم منصب کی پٹاری سے مستعار لیے گئے حربوں سے اقلیتوں اور کشمیریوں کا جینا دوبھر کر دیں گے۔