(روزنامہ قدس آنلائن خبر رساں ادارہ )ایک انسان ممکنہ طور پر اپنی حیات میں جتنے بھی کل مصائب دیکھ سکتا ہےفلسطینی قوم انکو روز مرہ کی بنیاد پر جھیل رہی ہے،وہ ہر روز صیہونی افواج کے ظلم ،جارحیت اور بربریت کا سامنا بہت دلیری سے کر رہے ہیں،صیہونی افواج کے ہاتھوں وہ اپنی جانیں گنوار ہے ہیں،اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے گھر مسمار ہوتے دیکھ رہے ہیں،ان کے کاروبار تباہ کیے جا رہے ہیں ،اور وہ یہ سب کچھ سہہ سہہ کر سخت جان ہو چکے ہیں،اسرائیلی ظلم بھی انکے ارادوں کو شکست نہیں دے پا رہا،بقول شاعر کے
"مشکلیں مجھ پر اتنی پڑیں کی آسان ہو گئیں”.
لیکن کچھ مظالم ایسے ہوتے کہ انکی کڑواہٹ کبھی بھی اسکی شدت کو کم نہیں ہونے دیتی،معصوم فلسطینی بچے محمد خدیر کا صیہونی آباد کاروں کے ہاتھوں بہیمانہ قتل بھی ایک ایسا دردناک سانحہ تھا جو فلسطینی عوام کبھی بھی بھلا نہیں سکے گی۔
پانچ سال قبل،ایک ایسا ہی اداس کر دینے والا دن تھا جب یہودی آباد کاروں کے ایک مسلح گروہ نے،جو کہ غیض و غصب میں مبتلا لوگوں کے ایک بڑے ہجوم پر مشتمل تھا محمد خدیر کو اغوا کر کے پہلے شدید تشدد کا نشانہ بنایا،پھر درندگی کے سب سے اعلی درجے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکو زندہ جلا دیا۔
آج اس کم سن شہید کی برسی مناتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اسکے قاتل صرف یہودی آباد کار نہیں ہیں،بلکہ صیہونی انتظامیہ،انکے سرپرست اور انکی ظلم پر مبنی پالیسیاں ہی اس مظلوم کے قتل میں برابر کے شریک ہیں۔
یہ سب فلسطینیوں پر ان گھناؤنے مظالم کا جواز یہ کہہ کر دیتے ہیں کہ شاید فلسطینی انسان نہیں ہیں،اور انکو جینے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے،اور انکے سرپرست بھی انکی ہاں میں ہاں ملادیتے ہیں۔
فلسطینیوں کو ان سب مظالم کے خلاف جدوجہد کرنی ہے اور اپنی سرزمین غاصب قوتوں سے واپس لینی ہے۔