(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) مقبوضہ فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے ‘سیکٹر C’ میں 532 قصبوں اور دیہاتوں میں دو لاکھ 97 ہزار فلسطینی آباد ہیں ، فلسطینی مسلمانوں کا یہودیوں کی 198 بڑی اور 220 ہنگامی بنیادوں پربنائی گئی چھوٹی بستیوں اور کالونیوں کے ذریعے گھیراؤکیا جارہا ہے تاکہ فلسطینیوں کو بنیادی انسانی حقوق کے محروم کرکے ہجرت پر مجبور کیا جائے اور اس پوری ارض مقدس پر صیہونیوں کا قبضہ ہوجائے۔
عرب اسرائیل جنگ کے بعد سے مقبوضہ فلسطین میں حالات انتہائی تشویشناک ہوگئے تھے ، اسرائیلی فوج اور پولیس روزانہ کی بنیادپر فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے تھے گو کہ سلسلہ آج بھی جاری ہے لیکن اس وقت مزاحمت کاروں کی جانب سے حملوں میں فلسطینیوں کو بھی نقصان اٹھانا پڑرہا تھا ، اس صورتحال کے پیش نظر عالمی طاقتوں کی مداخلت سے سنہ 1993ء کو فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان ناروے کے شہر اوسلو میں ایک سمجھوتہ طے پایا اس سمجھوتے کو ‘اوسلو معاہدے’ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
اس معاہدے کے تحت غرب اردن کو تین سیکٹرز’اے بی اور سی’ میں تقسیم کیا گیا۔ اس میں سیکٹر’سی’ رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا سیکٹر ہے جو غرب اردن کے 61 فی صد رقبے پر مشتمل ہے۔
ویسے تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینی پر جبری قبضہ کیا ہوا ہے اور وہ اس پوری سرزمین کو اپنے زیرتسلط کرنا چاہتا ہے تاہم سب سے پہلے اس کی نظر جس مقام پر ہے ان میں سے ایک سیکٹر سی بھی ہے جو کہ رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا ہے ، صہیونی ریاست اس سیکٹر پراپنے قبضے کی سازشوں پرعمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہے اور صہیونیوں نے غاصبانہ قبضے کی نہ ختم ہونے والی ہوس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے جاری اعدادو شمار کے مطابق اس وقت ‘سیکٹر C’ میں 532 قصبوں اور دیہاتوں میں دو لاکھ 97 ہزار فلسطینی آباد ہیں، فلسطینیوں کی یہ آبادیاں بنیادی سہولیات اور بنیادی انسانی حقوق سے اس لیے محروم رکھے گئی ہیں کیونکہ اسرائیل ان فلسطینیوں کو سہولیات سے محروم کرکے وہاں سے ہجرت پرمجبور کررہا ہے۔
ان تمام فلسطینی بستیوں کو یہودیوں کی 198 بڑی اور 220 ہنگامی بنیادوں پربنائی گئی چھوٹی یہودی کالونیوں کے ذریعے گھیرا گیا ہے جن میں 8 لاکھ 24 ہزار غیر قانونی یہودی دنیا بھر سے اسرائیل لاکر بسائے گئے ہیں۔
جولائی 2019ء کو اسرائیلی کابینہ نے فلسطین کے دریائے اردن کے مقبوضہ مغربی کنارے کے ‘سیکٹر C’ میں یہودی آباد کاروں کے لیے 715 گھر تعمیر کرنے کی منظوری دی، اس کے ساتھ ہی اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کے لیے چھ ہزار مکانات کی تعمیر کی منظوری دی جس پر عرب ممالک سمیت دنیا بھر سے شدید احتجاج کیا گیا تاہم اسرائیل سے اس فیصلے کو واپس لینے میں کوئی کامیاب نہیں ہوسکا۔
عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل ‘سیکٹر C’ کے 68 فیصد رقبے کو اپنے قبضے میں لے چکا ہے، فلسطینیوں کو عملا اس کے سرف ایک فی صد علاقے پرآزادانہ کام کی اجازت حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے’اوچا’ کے مطابق مقامی فلسطینی آبادی کو غرب اردن کے ‘سیکٹر C’ کے 30 فی صد علاقے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ یہ علاقہ مختلف فوجی کیمپوں کے ذریعے قبضے میں لیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران اسرائیل نے غرب اردن میں فلسطینیوں کے 136 مکانات مسمار کیے، القدس میں 48 اور سیکٹر میں 88 مکانات مسمار کیے گئے۔ مسماری کی کارروائیوں کے نتیجے میں صرف سیکٹر سی میں 97 بچوں اور 57 خواتین سمیت 218 فلسطینی بے گھر ہوئے، اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ’بتسلیم’ کے مطابق سنہ 2006ء کے بعد اب تک اسرائیل فلسطینیوں کو 1500 گھروں سے محروم کرچکا ہے جس کے نتیجے میں چھ ہزار فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں۔