بیروت (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) ایک طرف خطے کے عرب اور بعض مسلمان مُلک اور حکومتیں اسرائیلی ریاست کے ساتھ ’’تعلقات کی بحالی‘‘ کے لیے ہانپی چلی جا رہی ہیں تو دوسری طرف مسلم اور عرب دنیا میں اسرائیل سے دوستی کی کوششیں روکنے کے لیے مہمات بھی جاری ہیں۔ یہ دونوں کیفیات اور حالات متوازی جاری ہیں۔
اسرائیل اور عرب ملکوں کےدرمیان بڑھتی مشکوک قربت نے بالعموم پورے عالم اسلام اور بالخصوص خطے کے نوجوانوں میں بیداری کی ایک لہر پیدا کی ہے۔ اس کا ایک نیا ثبوت عالم اسلام میں نوجوانوں کی ایک نئی تحریک کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس تحریک میں عرب اور مسلمان ممالک کے نوجوان پیش پیش ہیں۔ اس میں شامل کارکن رضاکارانہ طور پر اسرائیل کے ساتھ مسلمان اور عرب ممالک کے تعلقات کے قیام کی کوششوں کو ناکام بنا رہے ہیں۔
اس تحریک کا ’’بیس کیمپ‘‘ لبنان کا دارالحکومت بیروت ہے۔ اس تحریک کو ’’یوتھ موومنٹ برائے اسرائیل سے تعلقات کی مخالفت‘‘ کا نام دیا گیا۔
اس مہم کے اہم مقاصد میں اسرائیلی ریاست کے ساتھ دوستی کی تمام شکلوں اور حربوں کو روکنا اور اسرائیلی ریاست کے غیر قانونی ہونے، خطے میں صیہونی توسیع پسندی کے پروگرام کے خطرات اور قضیہ فلسطین کے تصفیے کی اسرائیلی سازشوں کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے۔
’’بیرون ملک فلسطینیوں‘‘ کی ترجمان ویب سائیٹ کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے خلاف جاری مہم اس حوالے سے اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں مسلم امہ کے نوجوانوں کی اہم نوعیت کے مسائل بالخصوص قضیہ فلسطین، القدس اور فلسطینی تحریک مزاحمت وآزادی کے لیے نوجوانوں کے کردار کو اجاگر کیا گیا ہے۔
مہم کے اہداف
اس مہم کے اہداف میں عالم اسلام اور عرب نوجوانوں کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے خلاف متحرک اور منظم کرنا اور قضیہ فلسطین کے تصفیے، عرب خطے اور پوری دنیا میں صیہونی پروگرام کی روک تھام کے لیے نوجوانوں کو فعال کرنا ہے۔
اس کے علاوہ اس آگاہی مہم کے ذریعے مجموعی طور پر اسرائیل کےساتھ حکومتوں کی سطح پر تعلقات کے قیام کے خطرات سے آگاہ کرنا، فلسطینی قوم کی ہرسطح پر حمایت اور مدد کو یقینی بنانا اور دنیا کے زندہ ضمیر لوگوں کو فلسطینیوں اور فلسطینی کاز کے لیے متحد کرنا ہے۔
مہم کا آغاز
اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے خلاف تحریک کے روح رواں اور رابطہ کار سامی حمود نے کہا کہ یہ تحریک دراصل اسرائیل کےعالمی سطح پر جاری بائیکاٹ تحریک کی ایک نئی شکل ہے۔ اس مہم میں نوجوانوں بالخصوص نصرت فلسطین اور نصرت القدس کے لیے کام کرنے والے طلباء اور نوجوانوں کے گروپ شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس تنظیم کے ساتھ رابطے بڑھا رہے ہیں جو اسرائیلی ریاست کے ساتھ تعلقات کے قیام خلاف کام کر رہی ہے۔ اس مہم کا دائرہ کار وسیع کرنے کے لیے علماء، خواتین کی تنظیموں، ٹریڈ یونینز اور دیگر سماجی اور فلاحی تنظیموں کو شامل کیا گیا ہے۔
یہ مہم ایک ایسے وقت میں شروع کی گئی ہے جب کئی عرب ممالک کی حکومتیں اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے امریکی دباؤ کے تحت اسرائیل کے ساتھ دوستی کو اپنی بقاء سمجھ رہی ہیں۔ ایسے میں اس تحریک کی غیر معمولی اہمیت ہے اور زمانی اعتبار سے اس تحریک کی ایک خاص اہمیت ہے۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)