نابلس (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل ہزاروں فلسطینیوں میں سے بعض صیہونی عقوبت خانوں کی سختیاں برداشت کرئے اپنی زندگی کابیشتر حصہ گذار چکے ہیں مگر اس کے باوجود غاصب اور سفاک صیہونی دشمن ان کے دل سے آزادی کی امنگ اور فلسطین اور اس کی مقدسات سے محبت کے جذبات کم نہیں کرسکے ہیں۔
طویل ترین عرصے سے قید فلسطینیوں میں ایک نام عبدالناصرعیسیٰ کا بھی ہے۔ وہ مسلسل 28 سال سے اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل ہیں۔ صیہونی جیلروں اور جلادوں نے مل کران کے عزم کو شکست سے دوچارکرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر دشمن ان کے عزم کو شکست نہیں دے سکے ہیں۔ اسیر عبدالناصرعیسیٰ کو اسرائیلی عدالتوں کی طرف سے نام نہاد الزامات اور فلسطین کی تحریک آزادی کے لیے جدو جہد کی پاداش میں عمر قید کی سزا سنائی۔
جہاد ورثے میں ملا
مجاھد فلسطینی عبدالناصر عیسیٰ یکم اکتوبر 1968ء کو مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباؤ اجداد شمالی فلسطین کے باشندے ہیں جو اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت اپنے گھر بار اور شہر سے نکال دیئے گئے اور انہوں نے نابلس میں بلاطہ پناہ گزین کیمپ میں رہائش اختیار کی۔ سنہ 1969ء کو اسرائیلی فوج نے بلاطہ پناہ گزین کیمپ پر چھاپہ مارا اور عبدالناصر عیسٰی کے والد ابو شاکر کو حراست میں لے لیا گیا۔ ان پر اسرائیلی ریاست کے غاصبانہ قبضے کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور انہیں سات سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔
عبدالناصر ابھی چھوٹی عمر کے تھے جب انہوں نے اسرائیلی غاصبوں کے خلاف مزاحمت شروع کردی۔ وہ اپنے کمزور ہاتھوں میں پتھر اُٹھا کر صیہونیوں پر پھینکتے۔ سنہ 1976ء کو فلسطین میں یوم الارض کے موقع پر اسرائیلی فوج نے فلسطینی مظاہرین پر اندھا دھند گولیاں چلائیں جس کے نتجے میں عبدالناصر کی ایک ہمیشرہ گولی لگنےسے زخمی ہوئیں۔
زخمی ہونے کا واقعہ
ستمبر 1982ء کو عبدالناصر عیسیٰ کو بلاطہ ۔ القدس رورڈ پر ایک ریلی میں شرکت کے دوران اسرائیلی فوج نے گولیاں ماریں جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوگئے۔ اس وقت وہاں پر صبرا اور شاتیلا میں صیہونی سفاکیت کے خلاف احتجاج جاری تھا۔
اسی سال ان کے والد نے انہیں نابلس کے ایک نواحی علاقے میں قائم اسکول میں دخل کردیا۔ اس اسکول میں دینی تعلیم کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ سنہ 1983ء میں عبدالناصر نے اخوان المسلمون کے ساتھ شمولیت اختیار کی اور بلاطہ پناہ گزین کیمپ میں شہید قائد جمال منصور کے ہاتھ پر بیعت کی۔
اسی سال انہوں نے جمال منصور کے اسکول میں طلبہ کمیٹی کی ذمہ داری سنبھالی اور باقاعدہ طلبہ کی تنظیمی سرگرمیوں میں شامل ہوگئے۔
پہلی گرفتاری
سنہ 1986ء کو اسرائیلی فوج نے عبدالناصر کو ممنوعہ لٹریچر تقسیم کرنے کی پاداش میں حراست میں لیا۔ اس کارروائی میں ان کے رہنما جمال منصور اور دیگر ساتھی بھی گرفتار کیے گئے تھے مگر عبدالناصر کی یہ پہلی گرفتاری تھی۔
عبدالناصر کو استطبل نامی ایک حراستی مرکز میں منتقل کردیا گیا۔
سنہ1988ءمیں اسرائیلی فوج نے انہیں دوبارہ حراست میں لیا اور ایک بار پھر الفارعہ حراستی مرکز میں لے جانے کے بعد انہیں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا۔
دوبارہ زخمی اور عسکری کارروائی
سنہ 1988ء بلاطہ پناہ گزین میں پہلی انتفاضہ کی ایک ریلی کے دوران اسرائیلی فوج نے مظاہرین پراندھا دھند گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں عبدالناصر عیسیٰ ایک بار پھر زخمی ہوگئے۔
اسی سال مئی میں عبدالناصر نے ایک خفیہ عسکری کارروائی کی اور حماس رہنما الشیخ عمر جبرینی کی قیادت میں خصوصی عسکری تربیت حاصل کی۔ انہوں نے بم سازی کا طریقہ سیکھا اوراسرائیلی فوج کے خلاف مزاحمتی کارروائیاں کیں۔
مکان کی مسماری
سنہ 1988ء کو اسرائیلی فوج نے عبدالناصر عیسیٰ کو اسرائیلی فوج نے ایک مزاحمتی کارروائی کے الزام میں حراست میں لے لیا۔
دوران حراست اسیر عبدالناصر کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور جیل میں جنین اور نابلس کے اسیروں کو جمع کرکے اسرائیلی جیل میں مزاحمتی کارروائی کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ حماس نے سنہ 1990ء 1991ء کے دوران اسلامی جہاد اور دیگر قیدیوں کا لیڈر مقرر کیا گیا۔
سنہ 1995ء میں وہ غرب اردن سے غزہ میں داخل ہوئے اور وہاں انہوں نے یحییٰ عیاش اور ابو خالد الضیف جیسے اہم کمانڈروں کے ساتھ ملاقات کی۔
وہاں وہ ایک بارپھر عسکری کارروائیوں کو منظم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے غزہ اور مغربی میں بھی انہوں نے مزاحمت کاروں کو منظم کیا۔ اگست سنہ 1995ء کو انہوں نے نابلس میں الحاج نمر مسجد کے قریب اسرائیلی فوج پر گھات لگا کر حملہ کیا جس میں متعدد اسرائیلی فوجی زخمی ہوگئے۔ اسی رات اسرائیلی فوج نے رات نو بجے عبدالناصر عیسیٰ اور ان کے ساتھ عثمان بلال کو حراست میں لیا۔ گرفتاری کے فوری بعد انہیں ایک حراستی مرکز میں لے جا کر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
سنہ 2005ء کو انہوں نے اسرائیلی جیل میں حماس کی اعلیٰ قیادت تشکیل دی اور انہیں جیل میں حماس کی اسیران کونسل کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ سنہ 2011ء میں نے انہوں نے اسیر مروان البرغوثی اور عاھد غلمہ کےساتھ مل کر ایک کتاب تالیف کی جسے ’’گرفتاری کی مزاحمت‘‘ کا عنوان دیا گیا۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)