فلسطینی قوم جہاں سرفروشی میں اپنی کوئی مثال نہیں رکھتی،غاصب اسرائیل کے مقابلے میں انکی بہادری کی داستانیں تاریخ میں درج کیے جانے کے قابل ہیں تاکہ آئند ہ آنے والی نسلیں ان سے شجاعت اور بہادری سیکھیں،وہاں عالمی طاقتوں کی تمام ترسازشوں،اپنوں کے روپ میں چھپےغیروں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود وہ تمام شعبہ جات ہائے زندگی میں وہ مسلسل اپنی صلاحیتوں کا لوہا دنیا کے سامنے منوا رہے ہیں،اور وہ اپنی کارکردگی سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ جہاں بھی ہوں گے،اپنی ارض مقدس کی نیک نامی کے لیے مسلسل مصروف جدوجہد رہیں گے۔
یہاں ہم داستان سنائیں گے جرمنی میں مقیم ایک ایسے فلسطینی نوجوان خیرالدین ابو الحسن کی ،جنہوں نے اپنی حیات میں بے پناہ مشکلات ،تھکا دینے والے مصائب جھیلنے کے باوجود صرف اور صرف اپنی محنت اور ذہانت کی بنیاد پر عرب ریڈرز کے کثیر ملکی مقابلے میں شرکت کی،اور یہ ثابت کیا کہ ذہانت صرف مغرب کی یا آسائشوں میں زندگی گزارنے والوں کی میراث نہیں ہوتی۔
چار سال قبل شام میں جاری جنگ سے اپنی جان بچا کر خیر الدین ابوالحسن یورپ کے ملک جرمنی جا پہنچا جہاں وہ ہزاروں فلسطینوں کی طرح پناہ گزین کے طور پر مقیم ہے۔
ہر فلسطینی بچے کی طرح ابوالحسن کا بچپن کھلونوں سے کھیلنے کے بجائے آگ اور بارود کی بو میں گزرا،اس نے بھی وہی مشکلات دیکھیں جو بدقسمتی میں سرزمین فلسطین پر پیدا ہونے والے بچوں کا مقدر بن چکی ہیں۔یہ ایک فطرتی امر ہے کہ جو بچے بچپن میں مصائب کا سامنا کر لیتے ہیں،انکی آگے کی زندگی جتنا بھی خوفناک منظر پیش کرے،وہ اس سے خوف زدہ نہیں ہوتے بلکہ مشکلات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انکا سامنا کرتے ہیں۔ایسا ہی ابو الحسن کے ساتھ ہوا،پردیس میں بہت بڑے بڑے مسائل کا سامنا اس نے جرات و بہادری سے کیااور ساتھ ساتھ محنت بھی جاری رکھی۔
بد قسمتی سے زیادہ تر نوجوان یورپ پہنچ کر عیش و عشرت میں پڑ جاتے ہیں،اور تعلیم سے کوسوں دور ہوجاتے ہیں،لیکن ابو الحسن نے جرمنی پہنچ کر اپنی تعلیم کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا تھا جہاں سے منقطع ہوا تھا،یہاں آ کر اس نے عربی زبان میں موجود ادب کا مطالعہ شروع کردیا۔
جرمنی میں قیام کے دوران ہی اسکو عربی ریڈرز چیلنج مقابلے کے انعقاد کا پتا چلا تو اس نے اس مقابلے میں حصہ لینے کا عزم کیا،اس نے محنت کی،اور جب مقابلے کا نتیجہ آیا تو وہ تمام شرکا میں تیسرے نمبر پر موجود تھا۔
اسی سال اس مقابلے کا دوسرا اور آخری مرحلہ متحدہ عرب امارات میں ہوگا،پہلے مقابلے میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے کی وجہ سے وہ اس مقابلے میں بھی انتظامیہ کی جانب سے مدعو کیا گیا ہے۔
ابو الحسن نے ایک عربی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس مقابلے کے لیے بھر پور محنت کی تھی،میں نے اس دوران تیس کتابوں کا مکمل مطالعہ کیا،اس مقابلے میں شرکت میرا ذاتی فیصلہ تھا،جسے میں نے بطور چیلنج قبول کیا،اور مجھے پورا یقین ہے کہ میں اسکے آخری مرحلے میں بھی کامیابی سے ہمکنار ہوں گا۔