غزہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پروفیسر نادیرا شالہوب-کیوورکین نے چند روز قبل کولمبیا یونیورسٹی میں دیےگئے ایک لیکچر میں کہا کہ ’ اسرائیل فلسطینی بچوں پر ہتھیاروں کی آزمائش کرتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ فلسطینی مقامات اسرائیلی سیکیورٹی انڈسٹری کی لیبارٹریاں ہیں‘۔
اسرائیل آرمی ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق جامعہ عبرانی یروشلم کی سوشل ورک کی پروفیسر نے چند بچوں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج خاص طور پر نوجوان نسل کو ہتھیاروں کی اس مبینہ آزمائش کا نشانہ بناتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق محمد نامی بچے نے کہا کہ ’ آرمی یہ جائزہ لیتی ہے کہ ہمارے خلاف کون سے بم استعمال کریں، ہمیں رائفل، گیس بم یا اسٹنگ بم سے مارا جائے، ہمارے اوپر پلاسٹک کے بیگز رکھے جائیں یا کپڑے رکھے جائیں‘۔
دابوش کی رپورٹ کے مطابق عرب پروفیسر کی تقریر کا عنوان ’ فلسطینی یروشلم میں تشدد کی ٹیکنالوجی ‘ تھا جو جامعہ عبرانی میں کی گئی تحقیق پر مبنی تھا،جسے بیرون ملک جامعہ عبرانی کی تحقیق کے طور پر جانا جاتا ہے۔
تاہم جامعہ عبرانی کی جانب سے لیکچر پر کوئی مذمت نہیں کی گئی بلکہ صرف یہ کہا گیا پروفیسر کی جانب سے پیش کیے گئے خیالات یونیورسٹی کے نظریات کی ترجمانی نہیں کرتے۔
یونیورسٹی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’ یہ پروفیسر کے ذاتی خیالات ہیں جس کا انہوں نے خود اظہار کیا ہے‘۔
اسرائیلی فوج کے خلاف نئے الزامات سے قبل اکثر میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج قتل کیے جانے والے فلسطینی بچوں کے اعضا کا کاروبار کرتی ہے۔
بیلجیئم کی اے سی او ڈی ٹریڈ یونین کے ثقافتی سیکریٹری اور فلاسفی آف سائنس کے اسکالر رابرٹ واندر بیکین نے اگست 2018 میں کہا تھا کہ غزہ پٹی پر موجود آبادی بھوک سے مررہی ہے، انہیں زہر دیا جاریا ہے، بچوں کو ان کے اعضا کے لیے اغوا اور قتل کیا جارہا ہے‘۔
اس سے قبل نومبر 2015 میں اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر نے کہا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو قتل کرکے ان کے اعضا نکال لیتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو لکھے گئے خط میں ریاض منصور نے کہا تھا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے قتل کیے گئے فلسطینیوں کی لاشیں کورنیا اور دیگر اعضا کے بغیر واپس کی جاتی تھیں۔
خیال رہے کہ نیویارک ٹائمز نے اگست 2014 میں شائع کی گئی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ 2000 سے اسرائیل انسانی اعضا کی غیرقانونی اسمگلنگ میں ’غیر معمولی کردار ‘ ادا کررہا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل کی جانب سے اعضا کی چوری سے متعلق سب سے پہلے سویڈن کے معروف اخبار ایفٹون بلیڈیٹ نے 2009 میں رپورٹ کیا تھا۔
نیٹ ورک کی جانب سے کہا گیا کہ’ وہ اپنے ذاتی خیال سے متعلق آواز اٹھارہی تھیں‘۔
اسرائیل میں بڑھتی ہوئی تنقید کی وجہ سے اینکر کو وضاحت دینی پڑی انہوں نے کہا کہ ’ میری تنقید ان سپاہیوں کی جانب تھی جو فلسطین پر قبضے کے دوران معصوم افراد کو تکلیف پہنچاتے ہیں‘۔
خیال رہے کہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان اور ان کے وکلا کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اُٹھائی جاتی رہی ہے۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)