نابلس (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) اسرائیل کی دو درجن سے زائد جیلوں میں پابند سلاسل سات ہزار کے قریب فلسطینی طرح طرح عذاب اور انسانیت سوز مظالم کا سامنا کرتے ہیں۔ سرما کے موسم میں فلسطینی اسیران کی مشکلات اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔
سخت ترین سردی کے ماحول میں فلسطینی اسیران کیا کرتے ہیں اور انہیں کس طرح کےحالات اور ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ میں اسرائیلی زندانوں میں فلسطینی قیدیوں کے حالات اور انہیں درپیش مشکلات پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ رپورٹ سابقہ اسیران کے تجربات اور خیالات کی روشنی میں ترتیب دی گئی ہے۔ سابق اسیر صہیب ابو ثابت نے کہا کہ وہ کئی سال تک مجد جیل میں پابند سلاسل رہا۔ ابو ثابت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی زندانوں میں قید فلسطینی موسم سرما کے دوران مختلف حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ دستیاب حالات کے مطابق وہ پہننے اور اوڑھنے بچھونے کے گرم کپڑوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ سردیوں میں اسیران اپنی صحت کا خاص رکھتے اور زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں۔
بھائی چارے کی فضا
ابو ثابت نے بتایا کہ سردیوں کے موسم اسیران کے باہمی تعاون اور بھائی چارے کی فضاء میں اضافہ دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شمالی فلسطین کی جزیرہ نما النقب جیل میں قید فلسطینیوں کو سردیوں میں ماحول کو گرم رکھنے کی کوئی خاص سہولت نہیں دی جاتی۔ دیگر قیدخانوں کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں ہوتی۔
سابق اسیر غانم سوالمہ نے بتایا کہ شمالی فلسطین کی جلبوع جیل میں قید فلسطینیوں کو طرح طرح کی مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ موسم سرما شروع ہونے کے بعد اسرائیلی جیل انتظامیہ کی انتقامی کارروائیاں بڑھ جاتی ہیں۔ گذشتہ برس جلبوع جیل میں بارش کے دوران مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بارش کا پانی قیدیوں کے کمروں میں داخل ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں قیدیوں کے کپڑے اور دیگر سامان سب کچھ بھیگ گیا۔
انہوں نے کہا کہ اسیران سردیوں میں خود کو گرم رکھنے کے لیے تمام دستیاب امکانات کو استعمال کرتے ہیں۔ قیدی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے اور حتیٰ الامکان دوسرے کی مدد کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اسیران کی مشکلات میں کمی آتی ہے۔
اسیران اور ان کے اہل خانہ کی مشکلات
بلاطہ پناہ گزین کیمپ سے تعلق رکھنے والے اسیر محمد مرشود کے اہل خانہ نے بتایا مرشود جزیرہ نما النقب کی جیل میں قید ہے۔ گذشتہ ہفتے انہوں نے اسیر کے لیے گرم کپڑے پہنچانے کی کوشش کی مگر اسرائیلی حکام نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی۔ اسرائیلی جیلروں نے کہا کہ اسیران کو مخصوص مقدار ہی میں کپڑے دیے جاسکتے ہیں۔
اسیر کے اہل خانہ نے کہا کہ انہیں ڈر ہے آئندہ کی ملاقات میں اسرائیلی حکام دوبارہ ان کی طرف سے مرشود کے لیے کپڑوں کی فراہمی کی اجازت نہیں دیں گے۔
اسیران کے رابطہ گروپ کے رکن مظفر ذوقان نے کہا کہ اسرائیلی زندانوں میں قید فلسطینی اسیران کو بعض چیزیں اسرائیلی جیل کی کینٹین سے خریدنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے مگر کینٹین میں موجود اشیاء عام مارکیٹ کی نسبت بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیلی حکام نے انہیں فراہم کرنے میں ٹال مٹول کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
کلب برائے اسیران کے مطابق ’’ عتصیون ‘‘ جیل میں قید اسیران کی مشکلات سردیوں میں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ قید خانوں میں رطوبت اور نمی میں اضافہ ہوجاتا ہے، تعفن پھیلنے کے ساتھ قید خانوں میں کیڑے مکوڑے بھی آنا شروع ہوجاتے ہیں۔
کلب برائے اسیران کی مندوبہ جاکلین فرارجہ نے کہا کہ قید خانوں بچھائی گئی چٹائیاں بوسیدہ ہونے کی وجہ سے بدبودار ہوتی ہیں اور ان سے تعفن پھیل جاتا ہے۔