رام اللہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہروں میں جہاں آئے روز اسرائیلی فوج منظم ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے گناہ فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کرتی ہے وہیں رام اللہ اتھارٹی کے نام نہاد قوم کے محافظ بھی صیہونی دشمنوں سے پیچھے نہیں۔ عباس ملیشیا کی بدمعاشی اور بے گناہ شہریوں کے ماورائے عدالت قتل کے جرائم میں ایک تازہ جرم 25 سالہ فلسطینی نوجوان کا بہیمانہ قتل ہے جسے اس کی شادی کی پہلی سالگرہ سے قبل گولیوں سے بھون دیا گیا۔
روز نامہ قدس کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق حال ہی میں رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کے محافظوں نے 25 سالہ ایاد برجس کو اس وقت گولیاں ماریں جب وہ اپنے چچا زاد کے ہمراہ اپنے کام کی اجرت کے حصول کے لیے ایک ٹیکسی پر جا رہے تھے۔
ٍالقدس کے شمالی قصبے الرام کے رہائشی ایاد برجس کے والدین کو عباس ملیشیا نے محض شبے کی بنیاد پر گولیوں کا نشانہ بنایا۔ اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ عباس ملیشیا نے ان کی گاڑی پر 40 گولیاں چلائیں جن میں سے بیشتر ایاد کے جسم میں پیوست ہوگئیں۔
ایاد برجس کی ایک سال قبل شادی ہوئی اور اس کا ایک بچہ ’’کنان‘‘ ابھی صرف دو ماہ کا ہے۔
شہید فلسطینی نوجوان کے والد عبدالفتاح برجس نے کہا کہ عباس ملیشیا کے پولیس اہلکاروں نے اس کے بیٹے کی گاڑی پر 40 گولیاں چلائیں۔ شہید کے والد نے بیٹے کے بے گناہ قتل کی تمام ذمہ داری فلسطینی اتھارٹی اور عباس ملیشیا پرعائد کی جنہوں نے بغیر کسی خطرے کے اس کے بیٹے کو گولیاں مار کر شہید کیا۔
بیٹے کی شہادت پر تعزیت کے لیے آنے والوں سے بات کرتے ہوئے عبدالفتاح برجس کا کہنا ہے کہ عباس ملیشیا کے ترجمان لوئی ارزیقات کی طرف سے یہ دعویٰ قطعا بے بنیاد ہے کہ ایاد کی گاڑی سے پولیس چوکی پر فائرنگ کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ عباس ملیشیا کے مجرموں کو بچانے کے لیے ان کے بیٹے کو قصور وارقرار دینے کی مجرمانہ کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا بیٹا خود گاری چلا رہا تھا اور ان کے پاس کسی قسم کا اسلحہ نہیں تھا۔ عباس ملیشیا نے میرے بیٹے کو زخمی کرنے کے بعد گاڑی پر دھاوا بولا اور شدید زخمی حالت میں خون میں ڈوبے ایاد کو کسی قسم کی طبی معاونت فراہم کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔
ایک سوال کے جواب میں عبدالفتاح برجس کا کہنا تھا کہ اس کا بیٹا تعمیراتی شعبے میں ایک عام مزدور کے طورپر کام کرتا تھا۔ وہ اپنے کزن کے ہمراہ اپنے کام کی اجرت کے حصول کے لیے جا رہا تھا۔ جنہیں میرے بیٹے کو تحفظ فراہم کرنا تھا وہی قاتل بن گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ایاد کو عباس ملیشیا کے جلادوں نے 20میٹر کی مسافت سے گولیاں ماریں۔ عباس ملیشیا اور ایاد کے درمیان کسی قسم کی ہاتھا پائی نہیں ہوئی۔
ایک سوال کے جواب میں شہید کے والد نے کہا کہ اس کے بیٹے کو بے گناہ قتل کرنے کے بعد حالات پرسکون رکھنے کے لیے عباس ملیشیا کے اہلکاروں نے شہید کے جنازے میں شرکت کی۔
شہید کے چچا زاد کا کہنا تھا کہ گذشتہ برس جب ایاد برجس کی شادی ہوئی تو میں اسرائیلی جیل میں قید تھا جس کی وجہ سے میں اس کی شادی کی خوشی میں شریک نہیں ہوسکا۔ آج میں دکھ اور غم کے ساتھ اس کے جنازے کو کندھا دے رہا ہوں۔ اس نے بھی ایاد کےقتل کی تمام تر ذمہ داری عباس ملیشیا پرعائد کی۔
شہید کے چچا زاد کا کہنا تھا کہ اب فلسطینی اتھارٹی کو اپنے سیکیورٹی اداروں کی غلطی کا احساس ہوچکا ہے اور اس نے آئندہ اتوار کو ان کے ساتھ مذاکرات کی تاریخ مقرر کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ شہید کے خاندان کی کفالت کی تمام تر ذمہ داری فلسطینی اتھارٹی اُٹھائے اور ایاد کے مجرمانہ قتل میں ملوث عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ کے لیے اس طرح کے واقعات کا انسداد ہو سکے۔