غزہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) روس کی دعوت پرفلسطین کی 10 بڑی جماعتوں کے وفود اتوار کو ماسکو پہنچے جہاں انہوں نے کل سوموار کو دو روزہ مذاکرات کا آغاز کیا۔
روسی وزارت خارجہ کے زیر اہتمام فلسطینی دھڑوں میں مصالحتی مذاکرات کا دو روزہ دورکل سوموار کو ہوا۔ اس کانفرنس میں فلسطین کی موجودہ صورت حال بالخصوص قومی مصالحتی عمل پر تفصیلی غور کیا جا رہا ہے۔
خبررساں ادارے ’’صفا‘‘ کے مطابق فلسطینی دھڑے ’’ماسکو‘‘ کانفرنس میں قومی مصالحت سے متعلق اپنا پنا نقطہ نظر پیش کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ فریقین کے موقف میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
کانفرنس میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے وفد میں جماعت کے سیاسی شعبے کے ارکان موسیٰ ابو مرزوق اور حسام بدران شامل ہیں جب کہ تحریک فتح کے عزام الاحمد اور روحی فتوح شامل ہیں۔
خیال رہے کہ فلسطینی دھڑوں کی قیادت ایک ایسے وقت میں روس کی میزبانی میں مذاکرات کی میز پرجمع ہوئی ہے جب فلسطین کی داخلی صورت حال 13 سال میں انتہائی خطرناک منظر پیش کررہی ہے۔ غزہ میں حق واپسی اور انسداد معاشی ناکہ بندی مظاہرے جاری ہیں۔
دوسری جانب امریکی مندوبین خطے کے دورے پر ہیں جو امریکا کے نام نہاد امن منصوبے ’’صدی کی ڈیل‘‘ کو نافذ کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔
روسی تجزیہ نگار الیگذنڈر شومیلین کا کہنا ہے کہ ماسکو کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا حماس کے مفاد میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی ممالک نے حماس کا بائیکاٹ کررکھا ہے اور روس ان معدودے چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے حماس کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں۔ اس کےعلاوہ روس خطے کا موثر ملک ہے اور مشرق وسطیٰ کے مسائل کے حل میں روس کا کلیدی کردار ہے۔
اس وقت فلسطینی قوم کی نظریں روس میں ہونےوالے فلسطینی مصالحتی مذاکرات پرمرکوز ہیں۔ رائے عامہ میں سب سے بڑا یہ سوال موجود کہ آیا قومی مصالحت کو آگے بڑھانے کے لیے تحریک فتح کی جو ضد مصر کئی بار کی کوششوں میں ختم نہیں کرسکا آیا وہ ہٹ دھرمی روس ختم کرپائے گا۔
روس کی طرف سے تمام فلسطینی جماعتوں کو جب مذاکرات کے لیے دعوت نامے ارسال کیے تو اس میں سرفہرست فلسطینیوں کے درمیان اختلافات ختم کرنا، فلسطینیوں میں مصالحت اور قومی صف بندی کو سر فہرست رکھا گیا ہے۔ تحریک فتح اور حماس جو اب تک ایک دوسرے سے فاصلے پر ہیں کے لیے یہ ایک دوسرے کے قریب آنے کا بہترین موقع ہے۔
تین اہم ایشو
اسلامی تریک مزاحمت (حماس) کے سیاسی شعبے کے سینیر رکن اور روس کے دورے آنے والے جماعت کے وفد کے سربراہ ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے کہا ہے کہ ماسکو کی میزبانی میں سوموار کو فلسطینی دھڑوں کےدرمیان ہونے والے مذاکرات میں فلسطین کوموجودہ بحران سے نکالنے کی پوری کوشش کی جانی چاہیے۔
ایک بیان میں ابو مرزوق نے کہا کہ فلسطین کو موجودہ حالات سے باہر نکالنے کے لیے تمام قومی دھاروں کے درمیان مفاہمت ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ماسکو مذاکرات میں تین اساسی اور بنیادی مطالبات ناگزیر ہیں۔ ان میں تمام فلسطینی دھڑوں میں مصالحت، قضیہ فلسطین کے خلاف جاری سازشوں کی روک تھام اور غزہ کی پٹی پرعائد کردہ پابندیوں کا خاتمہ شامل ہے۔
مثبت پیش رفت کے امکانات اور خدشات
فلسطینی تجزیہ نگار عدنان ابو عامر نے کہا کہ ماسکومیں ہونے والی بات چیت میں فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے مثبت پیش رفت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم یہ ضرور ہے کہ مصالحت کی گاڑی کو ایک دھکا ضرور لگے گا اور وہ تھوڑا اور آگے چلی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ماسکو میں ہونے والے مذاکرات بھی صرف فوٹو سیشن تک محدود رہیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ روس کی طرف سے جس ایجنڈے پر فلسطینی قوتوں کو مجتمع کیا گیا ہے اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ فلسطینی دھڑوں میںمصالحت جیسا عمل ہی سب سے پیچیدہ ہے اور وہ قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات کا بھی حصہ رہ چکا ہے۔
عدنان ابو عامر کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں میں مصالحت کے لیے جس طرح مصر نے کوشش کی اسی طرح روس بھی کررہا ہے۔ دونوں کی کوششیں اسی وقت نتیجہ خیز ہوسکتی ہیں جب فلسطینی دھڑے عملی طورپر قومی مصالحت کے لیے تیار ہو جائیں۔