(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ )صہیونی قید خانوں میں جہاں دیگر ہزاروں بے گناہ فلسطینی محبوس ہیں وہیں سرزمین فلسطین کا ایک بہادر بیٹا ،فلسطینی مزاحمت کی مجسم نشانی حماس کا رکن پارلیمنٹ الشیخ حسن یوسف بھی مسلسل اسیری کی زندگی گزار رہا ہے،فلسطین کا یہ بہادر سپاہی جس نے اپنے عزم سے اسرائیلوں کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں،آج کل عرب میڈیا کی مکمل توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے،تفصیلات کے مطابق شیخ حسن یوسف کے خلاف صہیونی میڈیا مسلسل پروپیگنڈہ مہم چلارہا ہے جس میں یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان کا اپنا ہی خاندان انکا ساتھ چھوڑ چکا ہے،آج کل انکا پورا خاندان صہیونی میڈیا کے زیر عتا ب آیا ہوا ہے،اور انکے خلاف جو طوفان بدتمیزی برپا کیا جا رہا ہے،اسکا اصل رخ ان کے خاندان کی جانب ہے۔
میڈیا میں جھوٹی اطلاعات کے ذریعے ان افواہوں کو فروغ دیا جا رہا ہے کہ انکے خاندان کے تمام لوگ ان سے منحرف ہو چکے ہیں جب کہ در حقیقت ایسا کچھ نہیں ہے،حقیقت یہ ہے کہ الشیخ حسن یوسف کا ایک بیٹا مصعب انحراف کاشکار ہوا اور اسے یہودیوں نے اپنی بلیک میلنگ کا نشانہ بنا کر اپنے ساتھ ملا لیا ہے مگر ان کے خاندان کے دیگر تمام مردو خواتین پورے عزم کے ساتھ تحریک آزادی اور مزاحمت کے قافلے میں پورے استقامت کے ساتھ شامل ہیں۔ وہ جیلیں کاٹتے، ماریں کھاتے، تشدد برداشت کرتے اور صہیونی ریاست کےدیگر انتقامی اور نسل پرستانہ حربوں کا سامنا کرتے ہیں۔ الشیخ حسن یوسف کی ذات سراپا مزاحمت ہے۔ پوری فلسطینی قوم ان کا دل سے احترام کرتی اور ان کی قربانیوں اور خدمات کو سراہتی ہے۔
شیخ کی فلسطینی قوم کے لیے قربانیاں ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہیں،انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے جدو جہد کرتے ہوئے اسیری میں گزارا ہے،یعنی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جیل انکا دوسرا گھر ہے۔
اس بارے میں مقامی لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ شیخ حسن یوسف کی استقامت سے گھبرا کر اب صہیونی انتظامیہ انکو ذہنی طور پر قتل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔کیوں کے وہ کسی بھی صورت انکے عزائم ختم نہیں کر سکے۔
الشیخ حسن یوسف نے چھوٹٰی عمر سے ہی مزاحمت اور جہاد وعزیمت کے راستے میں شمولیت اختیار کی۔ عوام میں ان کی بے پناہ مقبولیت سے صہیونی ہمیشہ خوف زدہ رہے۔ انہیں غرب اردن میں سیاسی اور مزاحمتی میدان سے دور رکھنے کے لیے بار بار گرفتار کیا جاتا اور جیلوں میں قید کیا جاتا رہا ہے۔ رواں سال اپریل میں الشیخ حسن یوسف کی گرفتاری عمل میںلائی گئی تو یہ ان کی18 ویں گرفتاری تھی۔ وہ 64 سال میں سے 23 سال اسرائیلی عقوبت خانوں کی کال کوٹھڑی کی میں زندگی بسر کر چکے ہیں۔ اب تک کی آخری گرفتاری سے قبل وہ صرف چھ ماہ اسرائیلی زندانوں سے باہر رہے۔ انہیں گذشتہ برس اکتوبر میں 11 ماہ کی انتظامی قید کے بعد رہا کیا گیا تھا۔ الشیخ حسن یوسف اب بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں اور کے بال سفید ہو چکے ہیں مگر ان کے پائے استقامت میں آج بھی وہی استقلال اور استقامت ہے جو برسوں پہلے تھا۔ ان کی استقامت اور استقلال ہی صہیونیوں کے لیے پریشانی کا موجب ہے۔ صہیونی جلاد جسمانی، نفسیاتی اورذہنی تشدد کے جتنے حربے استعمال کرسکتے تھے الشیخ حسن یوسف کے ناتوان جسم پر آزماتے رہے ہیں مگر ان کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ الشیخ حسن یوسف اسرائیلی زندانوں میں قید فلسطینی اسیران کے لیے بھی مینارہ نور ہیں۔ بلند اخلاقی معیار، محبت کےجذبے سے سرشار، قید اور آزادی میں فلسطینیوں کے خیراخواہ اور مسلم امہ کے بہی خواہ ہیں۔ وہ میدان کار زار کے ایک بہادر سپاہی کی طرح ایک لمحے کے لیے آرام نہیں کرتے بلکہ صہیونی جیلوں میں بھی وہ حتیٰ الامکان اسیران، الاقصیٰ، القدس، فلسطین اور مسلم امہ کے لیے اپنا مشن جاری رکھتے اور غاصبانہ یہودی قبضے اور تسلط کے خلاف سرگرم عمل رہتے ہیں۔