خان یونس (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطین کے محصور اور جنگ زدہ علاقے غزہ کی پٹی میں ایک فلسطینی دو شیزہ نے یونیورسٹی کی تعلیم سے فراغت کے بعد بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے ایک ایسا کام شروع کیا جس کی طرف کم ہی لوگوں کی توجہ جاتی ہے۔
یونیورسٹی سے فراغت کے بعد 22 سالہ رواء النجار نے متعدد جگہوں اور اداروں میں ملازمت کے حصول کی کوشش رہی مگر ناکام رہی۔ تاہم اس نے بے روزگاری کو شکست دینے کا عزم کرلیا۔ اس نے اپنے گھر سے متصل ایک چھوٹے سے قطعہ زمین پر مختلف رنگوں اور نسلوں کے پھولوں کی کاشت کاری شروع کی۔ پھولوں کی کاشت کاری نہ صرف اس کا مشغلہ بن گیا بلکہ وہی اس کا ذریعہ معاش بھی قرار پایا ہے۔
رواء النجار کو جاننے والے اکثر اسے اپنے ہاتھ میں پانے کا گیلن اُٹھائے پھولوں کی کیاریوں کو سیراب کرتے دیکھتے ہیں۔
بائیس سالہ النجار غزہ کے جنوبی شہر خان یونس کے مشرقی علاقے بنی سھیلا کی رہائشی ہیں۔ اس نے اپنے چھوٹے سے باغیچے میں 20 مختلف اقسام کے پھولوں کے پودے کاشت کیے ہیں۔ ان پھولوں کے بیج بھی وہیں تیار کرتی ہے۔ پھولوں میں کئی اقسام کے گلاب کے پھول ہیں۔
پھولوں کی کاشت کاری میں رواء النجار کی محنت قابل رشک ہے اور وہ پھولوں کی دیکھ بحال کا سارا کام خود کرتی ہے۔ انہیں خوبصورت انداز میں ترتیب دیتی ہے۔
بے روزگاری سے نجات
رواء النجار علی الصبح بیدار ہوتی اور نماز سے فراغت کے بعد وہ پہلا کام پھولوں کی آب یاری سے شروع کرتی ہے۔اس کا کہنا پھول اب میرے دوست اور میرا ذریعہ معاش ہیں اور میں نے ان پھولوں سے اپنے گھر کے اخراجات نکالنا شروع کیے ہیں۔ غزہ کی پٹی پرمسلط کی گئی پابندیوں سے نکلنے کا اس سے بہتر اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
اس کے ایک سہلی الطموحہ کا کہنا ہے کہ رواء اپنا زیادہ وقت باغیچے میں گذارتی ہے۔ اس نے پھولوں کی کاشت کاری کے لیے 100 مربع میٹر کی جگہ مختص کی ہے اور وہ بڑے اہتمام کے ساتھ وہاں پر پھولوں کی کاشت کرتی ہے۔
رواء النجار کا کہنا ہے کہ پھولوں کی کاشت آسان کام نہیں بلکہ یہ بہت محنت طلب کام ہے۔ اب تک اس پیشے پر مردوں کی اجارہ داری رہی ہے۔ موجودہ حالات نے اسے یہ پیشہ اپنانے پر مجبور کیا مگر کوئی چیز اس میں مانع نہیں ہوئی۔
رواء النجار نے کچھ عرصہ قبل فلسطین یونیورسٹی کے نرسنگ کالج سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ اس کے پاس رضاکارانہ طورپر کام کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس دوران اس نے خود ہی پھولوں کی کاشت کاری کا پروجیکٹ شروع کیا۔
اس نے بتایاکہ میں نے ایک تنظیم کی طرف سے شائع کردہ ایک اشتہار دیکھا جس میں کہا گیا تھاکہ اپنا مستقبل محفوظ کریں۔ یہ تنظیم مختلف منصوبوں کے لیے ابتدائی سرمائے کی شکل میں معاونت کرتی ہے۔ میں بھی وہاں پر رجسٹریشن کی اور مجھے تین ماہ کےبعد اس کاجواب آیا۔ اس کے بعد تنظیم کی طرف سے مجھے کاشت کاری اور زراعت کا ایک کورس کرایاگیا۔
مشکلات
رواء النجار کا کہنا ہے کہ شروع میں اسے پھولوں کی کاشت کاری میں مشکلات بھی پیش آئیں۔ مجھے اپنے اقارب اور پڑوسیوں کو بھی اپنے کام کے حوالے سے قائل کرنا پڑا اور انہیں بتانا پڑا کہ میں یہ کام کرسکتی ہوں، مگر کسی نے میرے اس منصوبے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔میں نے خود اعتمادی کا مظاہرہ کیا اور اپنا مشن جاری رکھا۔ اسی خود اعتمادی نے مجھے خود انحصاری کی منزل سے ہم کنار کیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ آئندہ چند ہفتوں کےدوران اس کے پاس کاشت کیے گئے پھولوں کی ایک کھیپ فروخت کے لیے تیار ہوجائے گی۔ مجھے امید ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ میرے کاشت کردہ پھولوں کو ترجیح دیں گے۔
اس کے باغیچے میں طرح طرح کے گلاب کے پھول ہیں۔ ان میں زرد گلاب، سرخ گلاب، سفید گلاب ، چنبیلی اور دیگر پھول موجودہیں۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)