غزہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطین کے ان مٹ تاریخی مقامات میں ایک نام ’’دیر القدیس ھلارین‘‘ ہے جو آج سے صدیوں پہلے تعمیر کیا گیا۔ 329ء میں غزہ کے وسط میں 25 دونم کے علاقے پر بنائے گئی یہ عبادت گاہ مسیحی برادری کے لوگوں کا مذہبی، سیاحتی، ثقافتی اور تہذیبی مرکز چلی آ رہی ہے۔ آج بھی اس جگہ کی زیارت کے لیے دنیا بھر سے سیاح اور عبادت اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے زائرین اس مقام کا رخ کرتےہیں۔
رپورٹ کے مطابق اپنے ڈیزائن اور رقبے کے اعتبار سے دیر القدس ھلارین سب سے بڑا تاریخی مقام سمجھا جاتا ہے۔
مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ قدیس ھلارین عدم توجہی کا شکار ہوگیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل برطانوی ثقافتی کونسل کی تعاون سے اس کی مرمت کا کام شروع کیا گی۔
نیا مقام
دیر القدس ھلارین کو اطراف سے کنکریٹ کی دیواروں سے قلعہ بند کیا گیا ہے۔ اس کی مغربی سمت میں کئی بڑے اور کشادہ ہال، زائرین کے استقبال کے لیے ایک استقبالیہ اور دیر کے تاریخی اہم مقامات واقع ہیں۔
حال ہی میں فرانسیسی تعمیراتی ماہرین اور ماہرین آثار قدیمہ نے مل کر اس مقام کی مرمت کا کام شروع کیا۔
غزہ میں تاریخی مقامات کےامور کے تجزیہ نگار فضل العطل کا کہنا تھا کہ دیر القدیس چوتھی، پانچویں ، چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی تک ایک زندہ مرکز رہا۔ خلافت بنوامیہ کے دور میں بھی یہ اہم مرکز کے طورپر جانا جاتا۔
العطل کا کہنا تھا کہ صدیاں گذرنے جانے کے بعد دیرالقدیس کی پتھر کی بنائی گئی دیواریں بھی اب بوسیدہ ہونے لگی ہیں اور اس میں آنے والے زائرین کی سلامتی اور تاریخی مقام کی بقاء کے لیے اس کی مرمت شروع کردی۔
زائرین کی توجہ کا مرکوز
سنہ 1990ء کےدوران دیر القدیس میں لوٹ مار کی گئی اور اس میں موجود خزانے اور تاریخی نوادرات لوٹ لی گئیں۔ برسوں سے یہ مقام عدم توجہی کا شکار رہا۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی پر عائد کردہ پابندیوں کے باعث اس مقام کی مرمت کاکام بار بار تعطل کا شکار ہوتا رہا۔
جامعہ اسلامیہ کے ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر ایمن حسونہ کا کہنا ہے کہ دیر القدیس کی مرمت کا منصوبہ فلسطین میں ثقافتی مقامات کے تحفظ کے پروگرام کاحصہ ہے مگر گذشتہ 12 سال سے اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث اس کی مرمت کا کام شروع نہیں کیا جاسکا۔
انہوں نے کہا کہ برطانوی ثقافتی کونسل کی طرف سے اس کی مرمت کے لیے رقم مہیا کی گئی اور فرانسیسی ماہرین کی معاونت سےدیر القدیس کی مرمت کا آغاز کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر حسونہ کا کہنا ہے کہ ثقافتی اور تعلیمی اعتبار سے بھی دیر القدیس فلسطینی طلباء کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پر آئے روز طلباء کی بڑی تعداد بھی وزٹ کرنے آتی ہے۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)