غزہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) سترہ مارچ 2018ء کو فلسطین کے علاقے غزہ میں مختلف مذہبی، سماجی، سیاسی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی جماعتوں نے مل کر ایک کمیٹی تشکیل دی جسے ’’حق واپسی‘‘ باڈی کا نام دیا گیا۔ غزہ میں حق واپسی اور انسداد ناکہ بندی کے خلاف قائم کی گئی یہ باڈی فلسطینیوں میں مثالی اتحاد، یکجہتی اور یگانگت کی علامت بن کر ابھری۔
اس کمیٹی میں شامل جماعتوں نے فلسطین میں اہم فیصلوں کے لیے مشاورت کی طرح ڈالی اور مسلسل 50 ہفتوں تک غزہ میں احتجاج کر کے یہ پیغام دیا کہ فلسطینی قوم آپس میں متحد ہونے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی ریاست کی جانب سے دبائے گئے حقوق کے حصول کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دینے کے لیے بھی تیار ہے۔
اس کمیٹی میں انسانی حقوق کی تنظیمیں، قبائلی عمائدین، سرکردہ سماجی شخصیات، سیاسی اور مذہبی جماعتیں، فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق کے علم بردار ادارے، صحت اور بنیادی انسانی ضروریات کے میدان میں سرگرم قومی اور ملی تنظیمیں شامل ہیں۔
ایک سال قبل ان تمام قوتوں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے اپنی مثالی یکجہتی کا آغاز کیا اور اس کے لیے ’’قومی باڈی برائے حق واپسی وانسداد ناکہ بندی مارچ‘‘ رکھا گیا۔ اس باڈی پر تمام قومی قوتوں نے اعتماد کیا اور حق واپسی کے حصول کے لیے جدوجہد میں پوری قوم کی طرف سے اس کا ساتھ دینے کا اعلان کیا گیا۔
حق واپسی کمیٹی کے اہداف
فلسطینیوں کے حق واپسی کمیٹی کے واضح اور اصولی اہداف مقرر کیے گئے۔ غزہ کی ناکہ ظالمانہ ناکہ بندی کا خاتمہ، فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے بین الاقوامی سطح پر مظاہروں کو تحفظ دینا اور قومی اہمیت کے حامل فیصلوں قومی اتحاد کو یقینی بنانا تھا۔
اس کمیٹی کی طرف سے غزہ کی سرحد پر پانچ احتجاجی کیمپ قائم کیے گئے۔ ان کیمپوں کا مقصد ہر ہفتے مشرقی غزہ کی سرحد پر سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں سے نکالے گئے فلسطینیوں کی واپسی اور دوبارہ آباد کاری کے لیے احتجاجی مظاہرے کرنا تھا۔
اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے ترجمان عبداللطیف القانوع نے کہا کہ حق واپسی اور انسداد ناکہ بندی مارچ کا صرف ایک ہی پرچم ہے اور وہ فلسطینی پرچم ہے۔ دیگر تمام جماعتوں کے جھنڈے اس پرچم کے سائے تلےہیں۔ اس باڈی میں تمام فلسطینی قوتیں متحد ہیں اور ان سب کا مقصد فلسطینیوں کے غصب شدہ حقوق کے حصول بالخصوص حق واپسی اور غزہ کی ناکہ بندی کا خاتمہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ حق واپسی مارچ نے اپنے کئی اہم اہداف پورے کئے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اس میں پوری فلسطینی قوم متحد ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ حق واپسی وانسداد ناکہ بندی تحریک نے اپنے ایک سالہ دور میں عوامی مزاحمت اور پُر امن احتجاج کے کئی راستے اختیار کیے۔ اس تحریک کے پُرامن ہونے پر پوری دنیا کی طرف سے اس کی حمایت کی گئی مگر اس کے باوجود اسرائیلی ریاست نے تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا ناجائز استعمال کیا۔ حق واپسی نے فلسطینی قوم کو متحدہ، غزہ کی ناکہ بندی کے حوالے سے فلسطینیوں کی آواز عالمی فورمز پر پہنچنے اور قضیہ فلسطین کو عالمی ایجنڈے میں سر فہرست لانے میں مدد ملی۔
جمہوری محاذ برائے آزادی فلسطین کے رہنما طلال ابو ظریفہ نے کہا کہ حق واپسی باڈی اپنے اہداف اور مقاصد میں ہر اعتبار سے کامیاب رہی ہے۔ اس تحریک نے غزہ کی ناکہ بندی کو ایک اہم علاقائی حل طلب مسئلے کے طور پر اجاگر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس باڈی کے پرچم تلے تمام فلسطینی قوتوں میں مثالی اتحاد کا مظاہرہ کر کے دشمن کو قومی اتحاد کا پیغام دیا ہے۔
خیال رہے کہ 30 مارچ 2018ء سے جاری تحریک حق واپسی کے دوران اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حربوں کے نتیجے میں 273 فلسطینی شہید کیے گئے۔ ان میں سے 11 شہداء کے جسد خاکی اسرائیلی فوج کی تحویل میں ہیں جب کہ 31 ہزار فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں جن میں سے 500 کی حالت تشویشناک ہے۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)