(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) کوئی نوجوان جب بلوغت کی سرحد پر قدم رکھتا ہے تو اس کو دنیا کی ہر چیز میں رنگینی نظرآتی ہے، ان دیکھے خواب اورجذبے اسکو ہواؤں میں اڑنے پر مجبورکرتے ہیں،ہر چہرہ اسکو پر کشش لگنے لگتا ہے،وہ ہر صورت میں اپنا آئیڈیل ڈھونڈنے لگتا ہے،لیکن فلسطینی نوجوانوں کی توجہ کا مقصد صرف اور صرف انکی زمین اور اس پر قائم قبلہ اول ہیں، انکی جوانی کے خواب صرف اور صرف قبلہ اول کے تحفظ کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔
پاکستان کے مشہور سفرنامہ نگار،صف اول کے ناول نگار اور دانشور مستنصر حسین تارڑ نے ایک جگہ کیا خوب لکھا ہے کہ ” اپنی بقا کے لیے لڑی جانے والی پہلی جنگ، پہلی محبت کی مانند ہوتی ہے جو کبھی نہیں بھولتی”
یوں تو فلسطینی قوم کی اپنی سرزمین سے محبت بے مثال ہے،اور اسکی کئی وجوہات ہیں اگر چہ دھرتی ماں سے محبت کے لیے وجوہات درکار نہیں ہوتیں کہ اسکی آغوش سے ذیادہ پر سکون کوئی شے اس روئے ارض پر موجود نہیں لیکن فلسطینی عوام کے لیے اپنی دھرتی سے محبت کرنے کی سب سے موثر وجہ وہاں ہر قبلہ اول کی موجودگی ہے، اسرائیل جیسے ناسور کے قیام اور اس کے فلسطینی سرزمین پر قابض ہونے سے لیکر آج تک ہزاروں فلسطینی اسکی حرمت اور تقدس کو بحال رکھنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں،اس طویل فہرست میں تازہ اضافہ ایک انتہائی کم عمر بیس سالہ فلسطینی نوجوان محمد سمیر عبید ہیں۔
محمد عبید نے پہلا خواب ہی قبلہ اول کی حفاظت کا دیکھا تھا اور اس کم عمری میں ہی وہ بیت المقدس میں اپنی شناخت قبلہ اول کے ایک عاشق کے طور پر کروا چکے تھےانکا اکثر کہنا تھا کہ قبلہ اول کے ساتھ میری محبت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور میرا سب سے بڑا خواب یہ ہے کہ میں اپنی سانسوں کی ڈور کو قبلہ اول کی حرمت اور تحفظ کے لیے منقطع کر دوں۔
قبلہ اول سے عشق محمد سمیر عبید کا صیہونی قوتوں کے نزدیک اتنا بڑا جرم ٹہرا کہ کم سنی کی عمر میں ہی اس نے اپنی زندگی کے چار قیمتی سال اسیری میں گزار دیئے یہاں تک کہ اس کے قریبی عزیز و اقارب بھی اس جرم کا تاوان ادا کرتے رہے اور انکی بہن بھی قبلہ اول سے محبت کے جرم میں کافی عرصہ صیہونی زنداں خانے میں گزار کر آئی ہیں۔
محمد عبید کو کچھ دن قبل العیسویہ کے مقام ہر ظالم اسرائیل فوج نے گولیاں مار کار شہید کردیا۔ اسرائیلی فوج نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عبید کی شہادت کے بعد بھی ان کے اہل خانہ اور مقامی آبادی کا ناطقہ بند کر رکھا ہے، جبکہ عبید کی میت کو لواحقین کے حوالے کرنے پر بھی صیہونی حکام نے شرط یہ عائد کی تھی کہ عبید کی میت کو دور دراز کے قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے، جنازے میں 25سے زیادہ افراد شریک نا ہوں اور نا ہی فلسطین کا جھنڈا اور فلسطین کے حق میں کوئی مظاہرہ کیا جائے،
اگر ان میں سے کوئی بھی شرط قبول نا کی گئی تو شہید کے جسد خاکی کو لواحقین کے حوالے کرنےسے انکار کیا گیا تھا تاہم سلام ہیں ان ماؤں پر جنہوں نے صیہونیوں کی ان غیرانسانی شرائط کو یکسر مسترد کردیا اور آخرکار صیہونی حکام کو اپنی شرائط واپس لینی پڑیں۔
عبید تو اپنے رب کے حضور پہنچ گیا لیکن وہ قابض صیہونی ریاست کو پیغام دے گیا کہ جب تک آخری فلسطینی نوجوان بھی اس سرزمین پر موجود ہے،قبلہ اول پر ناجائز صیہونی قبضے کے خلاف مزاحمت جاری رہے گی۔
تحریر: تحسین عزیز