رام اللہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) اسرائیلی ریاست کی نام نہاد عدلیہ کی طرف سے آئے روز فلسطینی شہریوں کو قید وبند اور بھاری جرمانوں کی سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ حال ہی میں اسرائیل کی ایک فوجی عدالت نے فیصلے سے چونکا کر رکھ دیا۔ اسرائیلی عدالت نے ایک فلسطینی بچے کو 35 سال قید اور ایک ملین شیکل کے برابر جرمانے کی کڑی سزا سنائی۔ سزاپانے والا بچہ ایھم الصباح اس وقت سترہ سال کا ہے جب کہ اسے تین سال قبل 14 سال کی عمر میں حراست میں لیا گیا۔ اس پر مشرقی رام اللہ میں ’’رامی لیوی‘‘ صیہونی کالونی میں گھس کر چاقو سے حملے میں ایک اسرائیلی فوجی کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
زخمی حالت میں گرفتاری
اسرائیلی فوجیوں نے صیہونی فوجی کے قتل میں ملوث ہونے کے شبے میں ایھم الصباح اور اس کے ساتھی عمر الریماوی کو گولیاں مار کر شدید زخمی کیا جس کے بعد انہیں زخمی حالت میں حراست میں لے لیا۔ پہلے ان دونوں کی شہادت کی خبر آئی تھی تاہم بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ دونوں شدید زخمی ہیں۔
ایھم کے دائیں کندھے اور بائیں ٹانگ پر گولی لگی۔ کندھ پر لگنے والی گولی نے ہاتھوں کی خون کی رنگی کاٹ ڈالیں۔ دوران حراست سرجری کے ذریعے اس کی رگیں جوڑی گئیں۔ اس کی ٹانگ پر لگنے والی گولی بھی سرجری کے ذریعے نکالی گئی اور اب اس کی حالت قدرے بہتر ہے اور وہ اپنے پاؤں کے سہارے چل سکتا ہے۔
ظالمانہ عدالتی فیصلہ
ایھم الصباح کے والد باسم الصباح نے کہا کہ اسرائیلی عدالت کا اس کے بیٹے کی سزاکا فیصلہ انتہائی ظالمانہ اور سفاکانہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بچے کو اتنی طویل سزا دینے کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔ اس فیصلے سے اسرائیلی ریاست کی نسل پرستانہ ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ اسرائیلی عدالت کے فیصلے سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ اسرائیل اپنے ظالمانہ قوانین کے ذریعے فلسطینی قوم کو دبانے اور ان کےحقوق غصب کرنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایھم وہ پہلا فلسطینی بچہ ہے جسے اتنی سخت سزا دی گئی ہے۔ کسی بچے کو 35 سال قید کی سزا دینا بذات خود ایک جرم ہے مگر ہم اللہ کے فضل سے مایوس نہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب ایھم اور دیگر تمام اسیران صیہونی دشمن کی قیدسے آزادی حاصل کرلیں گے۔
حوصلے بلند ہیں
زخمی اور زیرحراست بیٹے کے ایھم کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کے والد نے کہا کہ’’ الحمد اللہ میرے بیٹے کے حوصلے بلند ہیں۔‘‘ سنہ 2015ء میں گرفتاری کے بعد اب تک اس نے اسرائیلیوں کے سامنے خود کو شکست دل نہیں ہونے دیا۔ ہماری جب بھی ایھم سے ملاقات ہوئی تو اس نے ہمیں حوصلے بلند رکھنے کی تاکید کی۔ ہمیں بھی اس کی بلند ہمتی سے نیا ولولہ ملا ہے۔
اسیر بچے کے والد نے کہا کہ ایھم کے وکیل نے انہیں بتایا کہ میں کمرہ عدالت میں داخل ہوا تو ایھم نے ہنس کر میرا استقبال کیا واپسی پرہنس کر اس نے الوداع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بچے کو اتنی سخت سزا دینے کا کوئی جواز نہیں۔ اتنی طویل قید اور بھاری جرمانہ اسرائیلی ریاست کی فلسطینیوں سے نفرت کی عکاسی کرتا ہے۔
میڈیا کے ذریعے دباؤ
ایک سوال کے جواب میں ایھم الصباح کے والد نے کہا کہ اسرائیلی عدالت کے فیصلے کے بعد فلسطین میں ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے جس جاندار انداز میں اس کے بیٹے کی حمایت کی گئی ہے وہ قابل تحسین ہے۔ تاہم انہوں نے عرب ممالک اور عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اس کے بیٹے کے معاملے کو انسانی معاملے کے طور پر ڈیل کریں تاکہ صیہونی ریاست کی جیلوں میں قید خواتین اور کم عمر بچوں کی رہائی کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ اسرائیلی ریاست آزادانہ طورپر بین الاقوامی انسانی حقوق کو پامال کررہی ہے۔ عرب ملکوں اور عالمی برادری کی طرف سے اسرائیل پر اس کے فیصلوں کی وجہ سے کوئی خاطر خواہ دباؤ نہیں ڈالا جا رہا جب کہ اسرائیلی میڈیا اور صیہونی لابی دھڑلے کے ساتھ عالمی سطح پر اسرائیلی ریاست کے مؤقف کو پذیرائی دینے کی کوشش کررہی ہے۔
مضبوط شخصیت
کم عمر ہونے کے باوجود ایھم الصباح نے کسی قسم کی کمزوری کا تاثر پیدا نہیں ہونے دیا۔ یہ اس کی شخصیت کی مضبوطی کی واضح دلیل ہے۔
حال ہی میں اسرائیل کے عبرانی ٹی وی چنل 10 نے جیل میں ایھم کا انٹرویو کیا۔ چینل کے نامہ نگار نے پوچھا کہ آپ اپنے کیے پرنادم ہیں تواس نے کہا کہ نہیں میں نے جو کچھ کیا وہ سب ٹھیک کیا ہے۔ میں 20 سال کی عمرکے بعد بھی ایسا ہی سوچوں گا۔
اس نے مزید کہا کہ ہم مزاحمتی نسل ہیں اور ہماری تربیت مزاحمت کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ صیہونی یہ گمان کرتے ہیں کہ مزاحمت ختم ہوگئی ہے۔ انہوں نے دوسری تحریک انتفاضہ کے دوران مزاحمت کو کچلنے کی پوری کوشش کی۔ ہم بعد میں پیداہونے والے ہیں مگر ہم نے مزاحمت اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ایھم الصباح نے کہا کہ میں یہودیوں کا مخالفت نہیں بلکہ میں صرف فلسطین پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف ہوں۔اس نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ میں کیا کررہا تھا۔ اگر میں شہید بھی ہوجاتا تواس سے کوئی فرق نہ پڑتا کیونکہ میں نے شہادت ہی کی نیت سے مزاحمت کا راستہ چنا ہے۔
ایھم الصباح مئی 2001ء کو پیدا ہوا۔ گرفتاری کے وہ اسکول میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اس کے والدین شمالی طولکرم کے قفین قصبے کے رہائشی ہیں۔ وہ اپنے چار بہن بھائیوں میں بڑا ہے۔