عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صد ر اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے مرکزی سرپرست رہنا سینیٹر حاجی محمد عدیل خان
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کر مرکزی سرپرست رہنما سینیٹر حاجی محمد عدیل خان کا تعلق پشاور سے ہے، آپ کے والد حکیم عبدالجیل نے باچا خان کے ہمراہ عدم تشدد کی تحریک میں بہت بڑا کردار ادا کیا، اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حاجی عدیل صاحب نے بھی عوامی نیشنل پارٹی کا دامن تھام لیا، آپ کا شمار خیبر پختونخوا کے اہم ترین سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے، پختونوں کے حقوق کیلئے آپ نے مختلف فورمز پر آواز بلند کی، عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے مرکزی سرپرست رکن حاجی محمد عدیل خان نے گذشتہ دنوں دی
کونسل آف یورپین فلسطینین ریلیشنز کے تحت 40 ممالک کے 90 پارلیمنٹرینز کے ہمراہ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے فلسطین کا ایک اہم دورہ کیا، اس دورہ کا مقصد عالمی توجہ اسرائیل کے مظالم کی جانب مبذول کرانا اور فلسطینیوں کے موجودہ حالات کو منظر عام پر لانا تھا،ماہانا وائس آف فلسطین نے دورہ فلسطین کے حوالے سے حاجی عدیل خان کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔
وائس آف فلسطین :آپ نے حال ہی میں فلسطین کا دورہ کیا، اس حوالے سے بتائیے گا کہ اس دورہ کے اغراض و مقاصد کیا تھے؟
سینیٹر حاجی محمد عدیل:جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ فلسطین دو حصوں میں تقسیم ہے، ایک حصہ غزہ کہلاتا ہے اور دوسرا ویسٹ بنک یا مغربی کنارہ، 2006ء میں جب یہاں الیکشن ہوئے تو حماس کو اکثریت حاصل ہوئی، فلسطین میں وزیراعظم غزہ کے حصے سے ہے جبکہ صدر ویسٹ بنک سے ہے، اسی طرح ان کی پارلیمنٹ کا چیئرمین ویسٹ بنک سے جبکہ وائس چیئرمین غزہ سے ہے، یہاں جب حماس کی حکومت آئی تو جیسا کہ حماس اسرائیل کے زیادہ خلاف ہے تو اسرائیل نے سمندر اور زمینی راستے سے اس علاقہ کی ناکہ بندی کر دی، قوانین کے مطابق سمندری حدود کے ساڑھے 12 کلو میٹر دور تک لوگوں کو آنے جانے اور ماہی گیری وغیرہ کرنے کی اجازت ہوتی ہے، لیکن اسرائیل نے زمینی ناکہ بندی کیساتھ لوگوں کے سمندری حدود سے 3 کلو میٹر باہر نکلنے پر بھی پابندی عائد کر دی، بلکہ اڑھائی کلو میٹر سے آگے جانے پر اسرائیلی فوجی فائرنگ کر دیتے ہیں، سمندر کے راستے اسرائیل کی طرف بھی نہیں جایا جا سکتا اور مصر کی طرف بھی نہیں۔
غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے اس زمینی، سمندری اور فضائی ناکہ بندی کے باعث فلسطین میں خوارک، ادویات، پٹرول سمیت ضروریات زندگی کی شدید ترین قلت ہو گئی ہے، اسرائیل فلسطینیوں پر اکثر بمباری بھی کرتا رہتا ہے، گھر، اسکول اور دیگر عمارتیں تباہ کر دی جاتی ہیں اور لوگ شہید کر دیئے جاتے ہیں، بدقسمتی سے اس ظلم و بربریت پر عالمی دنیا خاموش تھی، یورپی ممالک سے اگر کوئی امداد آتی بھی تھی تو وہ ایراص کے راستے سے آتی تھی لیکن وہ راستہ بھی اسرائیل نے بند کیا ہوا تھا، اس لئے وہ امداد بھی وہیں روک دی جاتی تھی۔
اسرائیل فلسطین کو ملک تسلیم نہیں کرتا، اسی لئے وہاں پر انہی کی کرنسی شقل چلتی ہے، ایک اور ظلم یہ کہ فلسطین کیلئے پہاڑوں سے آنے والے پینے کے پانی پر بھی اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے، سیوریج کے پانی کی نکاسی کو بھی روک دیا گیا، فلسطینیوں کے پاس اڑھائی کلو میٹر تک کا جو سمندری حصہ ہے سیوریج کا پانی بھی اسی میں جاتا ہے، فلسطینی ماہی گیری سے بھی محروم ہیں، ان کی سبزیاں اور دیگر اشیاء ایکسپورٹ ہوتی تھیں، لیکن وہ بھی اب نہیں ہو سکتیں۔
2010ء میں ترکی نے ایک امدادی جہاز فریڈم فلوٹیلا فلسطین بھیجا تھا، جس پر اسرائیلی فوجیوں نے حملہ کیا اور 13 افراد شہید ہو گئے اور باقی لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا، اس کے بعد ایک اور کوشش کی گئی اور 2 مزید جہاز بھیجے گئے، لیکن وہ بھی اسرائیل نے پکڑ لئے اور فلسطینیوں تک نہیں پہنچ سکے، اس کے بعد مصر میں کچھ تبدیلی بھی آئی اور نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا، جس نے رفح بارڈر کو کچھ حد تک کھول دیا، جس کے نتیجے میں کچھ آمد و رفت شروع ہوئی، باہر سے تعمیراتی سامان وغیرہ بھی فلسطین آنے لگا، اس سے قبل خفیہ سرنگوں کے ذریعے سامان غزہ لایا جاتا تھا۔
اس ساری صورتحال کے تناظر میں دنیا کے 40 ممالک کے 90 پارلیمنٹرینز نے غزہ جانے کا فیصلہ کیا، امریکی کانگریس کے اراکین کی جگہ این جی اوز کے نمائندے تھے، اس وفد میں لاطینی امریکہ، یورپ، عرب اور ایشیاء کے ممالک سے پارلیمنٹرینز شامل تھے جبکہ سارک سے صرف میں شریک ہوا، اس دورہ کا اہتمام دی کونسل آف یورپین فلسطینین ریلیشنز نے کیا، اس ادارے نے فیصلہ کیا کہ اس مرتبہ ہم ریگستانی علاقے سے جائیں گے اور بارڈر کراس کریں گے اور اس رکاؤٹ کو ختم کیا جائے گا۔
ہم سب قاہرہ میں اکٹھے ہوئے اور 21 تاریخ کی صبح 6 بجے بسوں کے ذریعے روانہ ہوئے، 18 گھنٹے کے سفر کے بعد غزہ پہنچے، ہم صنعاء کے راستے سے ہوتے ہوئے گئے اور سوئس کینال کو کراس کیا اور پھر ہم رفح پہنچے، راستے میں کئی مقامات پر مصری کسٹم، فوج، پولیس اور ایمگریشن والوں نے روکا، جب ہم رفح پہنچے تو پاسپورٹ چیک کرنے والوں نے 4 گھنٹے تک ہمیں انتظار کروایا، دوسری جانب فلسطینی بھائی ہمارا انتظار کر رہے تھے، فلسطینی پارلیمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر احمد ایک بڑے وفد کے ہمراہ ہمارے استقبال کیلئے بارڈر پر موجود تھے۔
ہم رات گئے غزہ پہنچے جہاں فلسطینی وفد نے ہمارا ستقبال کیا، وہاں ہم لوگوں نے خطاب بھی کیا، پاکستان بلکہ سارک کی جانب سے نمائندگی کرتے ہوئے میں نے کہا کہ فلسطین ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس پر پاکستان کی پوری قوم، حکومت، اپوزیشن، اسٹیبلشمنٹ اور تمام سیاسی جماعتوں کا ایک ہی موقف ہے کہ فلسطین کو آزادی ملنی چاہئے، ہم پر پہلے بھی دباؤ تھا اور اب بھی ہے، لیکن ہم نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی کریں گے۔
میں نے کئی موقع پر یہ بھی کہا کہ ہم اپنی جمعہ اور عیدین سمیت تمام نمازوں میں فلسطین کی آزادی کیلئے دعائیں کرتے ہیں، بیت المقدس ہمارے لئے تیسری مقدس جگہ ہے، اس کے بعد ہم خان یونس، رفح اور پھر غزہ پہنچے، غزہ میں ہم نے تین راتیں قیام کیا، جس رات ہم غزہ پہنچے اس وقت بھی اسرائیل کی جانب سے بمباری کی گئی، یہ بمباری شائد ہمیں ڈرانے کیلئے ہو، پہلے دن ہم فلسطین کے ان معذور بچوں سے ملنے گئے جو اسرائیلی مظالم کا نشانہ بنے۔
اس کے بعد ہم نے شہر کا جائزہ لیا اور تباہ شدہ عمارتیں دیکھیں، انہیں تھوڑا بھی شک ہو کہ یہاں آزادی کی جنگ لڑنے والا موجود ہے تو وہ وہاں بمباری کر دیتے ہیں، پھر ہم سمندر کی جانب گئے، تاکہ وہاں ماہی گیروں کے حالات کا جائزہ لیا جائے، فلسطین میں ہسپتالوں میں مشینیں خراب ہیں، پٹرول پمپس پر پٹرول نہیں، کئی اسکول تباہ ہو چکے ہیں، 2006ء سے اب تک ہونے والی بمباری کے نتیجے میں 160 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
فلسطینی اسمبلی میں ایک تقریب منعقد ہوئی، جس میں وہاں کے پارلیمنٹیرینز اور معززین نے بھی شرکت کی، ہمارے وفد کے اراکین نے خطاب کیا، اس موقع پر میں نے کہا کہ ہم آپ کی آزادی کیلئے ہمیشہ دعاگو رہتے ہیں، آپ لوگوں کو صہیونی مار رہے ہیں، لیکن ہماری سرزمین پر تو مسلمان دوسرے مسلمان کا قتل کر رہا ہے، ہمارے 5 ہزار سکول تباہ کر دیئے گئے ہیں، ہمارے ہسپتالوں، مزاروں اور قبرستانوں پر حملے ہوتے ہیں، 36 ہزار کے قریب لوگ شہید ہو چکے ہیں، جس میں میری پارٹی کے 600 افراد شامل ہیں۔
ہمارے فوجی بھی مارے جا رہے ہیں، ہم بہت مصیبت میں ہیں، لیکن آپ کے حالات دیکھ کر بھی ہمیں دکھ ہوا ہے، فلسطینیوں کی جتنی مالی مدد ہو سکی ہم نے کی، زخمی ہونے والے بچوں کے علاج کیلئے بھی کچھ مدد کی، اس کے علاوہ بھی بعض این جی اوز ان کی مدد کرتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ مدد اسرائیل کے راستے سے ہوتی ہے اور اسرائیلی امداد پہنچنے نہیں دیتے، ہم نے یورپین پارلیمنٹیرینز سے کہا کہ اگر آپ لوگ مدد کرتے ہیں تو مصر کے راستے سے کریں۔
غزہ میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جہاں ہم کھڑے ہوتے تھے اس سے چند فرلانگ کے فاصلے پر اسرائیلیوں نے اپنی آبادیاں اور عمارتیں قائم کر رکھی ہیں، غزہ بہت سرسبز علاقہ ہے اور وہاں کئی فصلیں اگتی ہیں، لیکن فلسطینی اپنی زمینوں پر بھی نہیں جا سکتے اور اگر وہ جانے کی کوشش کریں تو اسرائیلی ان پر فائرنگ کر دیتے ہیں، اسی طرح سمندر میں تھوڑا آگے نکلیں تو ان پر حملہ کر دیا جاتا ہے، سمندر میں 4 کلو میٹر کے فاصلے پر گیس دریافت ہوئی ہے، لیکن اس گیس پر بھی اسرائیل نے قبضہ کر لیا ہے اور ساری گیس اسرائیل کی طرف جا رہی ہے لیکن فلسطینی استعمال نہیں کرسکتے۔
گذشتہ دنوں ایک اسرائیلی فوجی کے بدلے470 فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ ہوا تھا، ان فلسطینی قیدیوں میں بعض کا تعلق غزہ اور بعض کا ویسٹ بنک سے تھا، اسرائیل نے غزہ کے قیدیوں کو ویسٹ بنک اور ویسٹ بنک کے قیدیوں کو غزہ بھیج دیا، لہٰذا وہ قیدی ایک قید سے نکل کر دوسری قید میں چلے گئے، یہ قیدی اپنے علاقوں کو واپس نہیں آ سکتے، کیونکہ انہیں نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہے، اسرائیلیوں نے عورتوں اور مردوں کے علاوہ بچوں تک کو قید کیا ہوا ہے، ان قیدیوں سے بھی ہماری ملاقاتیں ہوئیں۔
ایک خاتون نے بتایا کہ اسرئیل نے اس کے بھائی، شوہر، چچا اور خاندان کے دیگر افراد کو قید کیا تو اس کو بھی حراست میں لے لیا، اس خاتون کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے وقت وہ حاملہ تھی اور جب جیل میں اس کی زچگی ہوئی تو اس کے بازوں اوپر زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے، انہوں نے پیدا ہونے والے معصوم بچے کو کوئی دوا دی نہ خوارک۔
ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ فلسطینی قیدیوں کو کیسی کیسی سخت ترین سزائیں دی جاتی ہیں، اسرائیل فلسطین میں بے پناہ ظلم کر رہا ہے اور امریکہ اسے تحفظ فراہم کر رہا ہے، امریکہ ویسے تو دنیا میں انسانی حقوق کی بہت بات کرتا ہے لیکن اسرائیل کے معاملے پر اس کی آنکھیں، زبان اور کان بند ہو جاتے ہیں، اس دورہ میں برطانیہ، جرمنی، فرانس، جنیوا، اٹلی، سپین، پرتگال، لاطینی امریکہ کے کئی ممالک کے پارلیمنٹرینز بھی ہمارے ساتھ تھے، امریکہ سے آنے والے این جی اوز کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ امریکی کانگریس کے اراکین اور سینیٹرز یہودیوں سے پیسے لیتے ہیں، اس لئے وہ اس دورہ پر کیسے آ سکتے تھے۔
وائس آف فلسطین:جیسا کہ آپ نے ذکر کیا کہ اس دورہ میں آپ کے ہمراہ یورپ اور لاطینی امریکہ کے پارلیمنٹیرینز بھی تھے، تو کیا اسرائیلی مظالم کیخلاف آپ نے پاکستان کی جانب سے ان پارلیمنٹیرینز کے سامنے احتجاج ریکارڈ کروایا۔؟
سینیٹر حاجی محمد عدیل:اس دورہ پر انہوں نے مجھے بہت اہمیت دی، ہر تقریب میں وہ مجھے تقریر کیلئے سٹیج پر بلاتے تھے اور میں تقریر کرتا تھا، ہم پارلیمنٹیرینز نے ملکر وہاں ایک قرارداد پاس کی، دو صفحات پر مشتمل اس قرار داد پر تمام اراکین نے دستخط کئے، اس موقع پر یہ بھی طے پایا تھا کہ تمام پارلیمنٹیرینز یہ قرارداد اپنی اپنی پارلیمنٹ یا اسمبلی میں پیش کریں گے، پاکستان واپس پہنچ کر میں نے یہی قرارداد سینٹ میں جمع کرا دی اور تمام سینیٹرز سے درخواست کی ہے کہ وہ یہ قرارداد پاس کروائیں۔
مجھے امید ہے کہ سینٹ کا اجلاس جو شروع ہو چکا ہے میں اس قرارداد پر بات ہو گی، ، فلسطین جب یونیسکو کا رکن بنا تو امریکہ نے یونیسکو کی امداد بند کر دی، بڑا دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ ہم مسلمان پھنسے ہوئے ہیں، کہیں ڈکٹیٹرشپ ہے تو کہیں بادشاہت، مسلم دنیا میں اب کچھ تبدیلی آئی ہے، خدا کرے اب وہاں جمہوری حکومتیں بنیں اور وہ آنکھ اٹھا کر دنیا سے بات کر سکیں۔
وائس آف فلسطین:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کم از کم مسلم ممالک میں عوام کو بیت المقدس کی اسرائیل سے آزادی کیلئے مخصوص دن منانا چاہئے۔؟
سینیٹر حاجی محمد عدیل:دیکھیں صرف دن منانے سے کچھ نہیں ہو گا، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عملی قدم اٹھائیں، ایران اس حوالے سے دن مناتا ہے، یہ اچھی بات ہے لیکن آج کل ایران پر بھی پابندیاں لگی ہوئی ہیں، خدا کرے اس کے مسائل بھی حل ہوں، عرب ممالک میں بھی تبدیلی آ رہی ہے، جو خوش آئند ہے۔
وائس آف فلسطین:آپ کے خیال میں فلسطین کی آزادی کیلئے مسلم ممالک کو کس قسم کا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔؟
سینیٹر حاجی محمد عدیل:مسلم ممالک کو اس معاملہ پر سخت سٹینڈ لینا چاہئے، فلسطین کے لوگوں کا یہ حق بھی ہے کہ انہیں آزادی ملے، بطور مسلمان ہمارا فرض ہے کہ اپنے قبلہ اول کی آزادی کیلئے کوششیں کریں، ہمیں مصلحتوں کا شکار نہیں ہونا چاہئے، اب جیسا کہ غزہ اور ویسٹ بنک میں مختلف جماعتوں کی حکومت ہے تو ہم نے ان سے کہا کہ پہلے آپ لوگ متحد ہوں، جس دن ہماری غزہ سے واپسی تھی اس روز مصر کی جانب سے قاہرہ میں الفتح اور حماس کے ایک مشترکہ اجلاس کا اہتمام کیا گیا اور یہ دونوں جماعتیں اس میں شریک ہوئیں، اب مذاکرات شروع ہو گئے ہیں کہ عالمی سطح پر دونوں جماعتوں کا موقف ایک ہونا چاہئے اور اسرائیل کیخلاف سٹینڈ بھی ایک ہونا چاہئے، ویسٹ بنک والوں کیساتھ یورپی یونین اور امریکہ کا رویہ کچھ نرم جبکہ غزہ والوں کیساتھ سخت ہے، اس لئے ہم نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں جماعتوں کا موقف ایک ہونا چاہئے، غزہ میں ہمارا جو اجلاس ہوا اس میں ویسٹ بنک سے اسپیکر نے ٹیلی فونک خطاب بھی کیا تھا۔
وائس آف فلسطین :مسئلہ فلسطین کے حوالے سے عالمی اور سفارتی سطح پر پاکستان کی کوششوں سے کیا آپ مطمئن ہیں؟
سینیٹر حاجی محمد عدیل:دیکھیں، میں نے وہاں بھی یہی بات کی کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کا سٹینڈ بڑا واضح ہے، ہماری حکومت، اپوزیشن، اسٹیبلشمنٹ، میڈیا، عوام سب کا فلسطین کے بارے میں موقف ایک ہے، اس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ فلسطین آزاد ہو، بیت المقدس فلسطین کا حصہ ہے اور یہ فلسطینیوں کو ملنا چاہئے، بدقسمتی سے عالمی سازشوں کے نتیجے میں وہاں اسرائیلی ریاست بن گئی ہے، لیکن فلسطینی ریاست کا دارالخلافہ بیت المقدس ہونا چاہئے۔