رام اللہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی پیرانہ سالی اور مسلسل بگڑتی صحت تحریک فتح کی قیادت کے جہاں ایک تشویش کا باعث ہے وہیں تحریک فتح کی قیادت متبادل قیادت کے لیے بھی اپنے طور پس چلمن کام کررہی ہے۔ تحریک فتح طاقت کے توازن کی بحالی اور محمود عباس کی جگہ نئی قیادت کے لیے کام کررہی ہے مگر یہ سب کچھ پس چلمن ہو رہا ہے۔
فتحاوی دھڑوں کا ’’مسلح‘‘ ہونا
غرب اردن کے با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران تحریک فتح کی قیادت میں صدر محمود عباس کی صحت کے حوالے سے تشویش پائی جاتی رہی ہے۔ یہی وہ اہم وجہ ہے جس کے باعث تحریک فتح میں بعض دھڑے اسلحہ حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فی الحال مختلف دھڑے اپنے پاس اسلحہ ذخیرہ کررہےہیں جو محمودعباس کے جانے کے بعد کام آسکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک فتح کے مختلف دھڑوں کی طرف سے سیکڑوں خود کار رائفلیں حاصل کی گئی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فلسطینی سیکیورٹی اداروں کو اس کا علم نہیں۔ تاہم محمود عباس کے بعض قریبی حلقے بھی اسلحہ جمع کررہے ہیں اور یہ کہا جا رہاہے کہ یہ سب کچھ سیکیورٹی اداروں کی اجازت سے ہوگا۔ تحریک فتح کے بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ منحرف رہنما محمد دحلان کے حامیوں کے خلاف کسی بھی وقت کریک ڈاؤن کیا جاسکتا ہے۔ فتح کے منحرف لیڈرمحمد دحلان کے حامی صدر عباس کے ساتھ وفاداری کا اظہار نہیں کرتے۔
ذرائع نے بتایا کہ تحریک فتح کے مختلف دھڑوں کو عرب ممالک کی طرف سے جان بوجھ کراسلحہ فراہم کیا جاتا ہے۔ تحریک فتح کے ایک رہنما نے ایک ٹرک پر دو سو خود کار بندوقیں اپنے گودام میں جمع کیں۔
خاموش مقابلہ
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک فتح کے حلقوں کی طرف سے اسلحہ حاصل کرنے کی کوشش خاموش مقابلے کے مترادف ہے۔ صدر محمود عباس کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان فی الحال کسی قسم کی محاذ آرائی نہیں چل رہی تاہم ان کے رخصتی کے بعد ان کے حامیوں اور وفاداروں کےدرمیان وفاداری کی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک فتح کی روایتی قیادت کو صدر عباس کی جانشینی کے معاملے پرکوئی خدشہ نہیں۔ فتح کی روایتی قیادت اس جنگ سے دور رہنا چاہتی ہے۔ان میں قائم مقام وزیراعظم رامی الحمد اللہ جیسے رہنما شامل ہیں۔ طاقت کے مراکز کےقیام میں ان کا کلیدی کردار ہے۔
تاہم تحریک فتح کے رہنماؤں خیال ہے کہ صدر عباس کے ہوتے ہوئےتحریک فتح کی قیادت ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ کا استعمال نہیں کرے گی مگر پریشانی کی بات یہ ہے کہ فتح کی قیادت محمود عباس کے ما بعد کیا کرگے۔ کیا وہ دھڑوں کے جمع کردہ اسلحہ کو واپس لے سکے گی یا اس کا استعمال روک سکے گی۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)