مقبوضہ بیت المقدس (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) اسرائیل میں نو اپریل 2019ء کو ہونے والےانتخابات سر پر ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کی موجودہ حکمران جماعت لیکوڈ اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو ایک بار پھربھاری اکثریت سے پارلیمنٹ کے الیکشن جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
نیتن یاھوکو کئی محاذوں پر اس وقت مشکل چیلنجز کا سامنا ہے۔ جنوب میں غزہ اورشمال میں لبنان کی گرما گرم سرحدی صورت حال کے ساتھ ساتھ طویل فاصلے پرموجود اسرائیل کا دشمن ایران بھی اسرائیلی ریاست کے لیے باعث پریشانی ہے۔
اگرچہ سال 2018ء اور 2019ء کے اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرات کے اندازوں میں ایران کو پہلا اور بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے مگر داخلی سطح پر غزہ کا محاذ بھی کم خطرناک نہیں۔ نیتن یاھو غزہ میں جنگ سے بچنے کے لیے مختلف حربے استعمال کررہے ہیں۔
گذشتہ چند ایام کے دوران اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں شائع ہوتی رہی ہیں کہ غزہ کی پٹی میں کشیدگی اور تناؤ میں کمی آئی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ کبھی کوئی ایسی خبر اسرائیلیوں کو پریشان کردیتی ہے کہ غزہ کی پٹی معاشی حالات کافی ابتر ہیں۔ اقتصادی دباؤ میں کمی لانے کے لیے اسرائیلی ریاست نے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے تاہم غزہ کے ملازمین کے لیے قطر کی طرف دی جانے والی گرانٹ فراہم کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
حال ہی میں نیتن یاھو نے کابینہ کے ارکان سے کہاہے کہ وہ غزہ کو رقوم کی ترسیل کے لیے مختلف ذرائع تلاش کریں تاکہ غزہ اور غرب اردن میں کسی ممکنہ کشیدگی کو روکا جا سکے۔
انتخابات کا میزان
اپریل دو ہزار انیس میں ہونے والے کنیسٹ کے انتخابات کے موقع پر اسرائیلی ریاست کو شمال میں لبنان اور جنوب میں غزہ کی پٹی پر گرما گرم محاذ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نیتن یاھو نے اپنے ووٹروں کوتسلی دینے اور ان کی حمایت کے حصول کے لیے یقین دہانی کرائی کہ ان کی حکومت غزہ میں جنگی قیدی بنائے گئےفوجیوں کی رہائی کے لئے ڈیل کررہی ہے تاہم اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) نے اس ڈیل کی سخت مخالفت کی ہے۔
تجزیہ نگار ڈاکٹر محمود العجرمی نے کہاکہ اسرائیلی ریاست کے پاس غزہ کی پٹی کے بحران سے بہ حفاظت بچ نکلنے کا کوئی پرسکون راستہ نہیں ہے۔ اگرچہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر تین بار جنگ مسلط کی اور بارہ سال سے غزہ کا معاشی محاصرہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل غزہ کے حوالے سے اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیتن یاھو اس وقت انتخابات کی گرما گرمی اور غزہ کے محاذ پر پائی جانےوالی کشیدگی پر مشوش ہیں۔ وہ اپنے سخت اور انتہا پسند ووٹروں کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جو انہیں انتخابات میں کامیابی دلا سکے۔
تاہم انہیں دوسری طرف داخلی سیاسی محاذ پر ’’ گرین وائیٹ‘‘ سیاسی اتحاد کی طرف سے انتخابی معرکے میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہےکہ غزہ کی پٹی کی بحرانی صورت حال کے بعد مسجد اقصیٰ کے باب رحمت میں نمازیوں پر اسرائیلی فوج کے تشدد، اسرائیلی جیلوں میں کشیدگی اور فلسطینی شہداء و اسیران کو دی جانے والی رقوم پر پابندی نے وزیراعظم نیتن یاھو کو ایک نئی مشکل سے دوچار کیا ہے۔
آتش فشان پھٹنے کو ہے
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی طرف سے بارہ سال سے مسلط کی گئی پابندیوں کے باعث علاقے میں حالات کافی سنگین ہیں اورمعاشی پابندیوں کے باعث زندگی کافی مشکلات سے دوچار ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کی سرحد پر اسرائیلی فوج کی مشقیں اس بات کا اشارہ ہیں کہ اسرائیلی ریاست غزہ میں ایک نئی جنگ مسلط کرنے کی کوشش کرسکتا ہے مگر کسی بھی جنگ سے قبل ہی اسرائیلی ریاست کے سامنے غزہ کا آتش فشاں پھٹ سکتا ہے۔
غزہ کی سرحد پر اسرائیلی آرٹلری اور توپ خانے کی مشقیں، ٹیلی کمیونیکیشن یونٹوں اور ملٹری انٹیلی جنس ادارے کی طرف سے کی گئی مشقوں کے ذریعے غزہ کے بحران کو جنگ سے حل کرنے کی کوشش کا عندیہ دیا گیا۔
تجزیہ نگار العجرمی کا کہنا ہے کہ سنہ 2008ء کو ایہود اولمرٹ، 2012ء کو ایہود باراک ، 2014ء کو موشے یعلون اور بینی گانٹز جب کہ سنہ 2018ء کو غزہ کے محاذ نے آوی گیڈور لائبرمین کو استعفیٰ دینے پرمجبور کردیا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کا محاذ اسرائیلی ریاست کے سامنے آتش فشاں بن کر پھٹ سکتا ہے اور اس کا سب سے بڑا نقصان خود اسرائیلی ریاست کو ہوگا۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)