شمالی وادی اردن (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطین کے وادی اردن کو اسرائیلی ریاست کی توسیع پسندی کا نیا ہدف سمجھا جاتا ہے مگر اس کے بعض قصبے اور مقامات ایسے ہیں جواسرائیلی ریاست کی توسیع پسندی کے پروگرام میں سد راہ بنے ہوئے ہیں۔
وادی اردن کے شمال میں ’’العقبہ‘‘ گاؤں بھی انہی مقامات میں سے ایک ہے جسے اسرائیلی ریاست یہودیانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ العقبہ گاؤں وادی اردن کے شمالی علاقوں کے ایک چھوٹے سےگاؤں کو کہا جاتا ہے۔
اس گاؤں کی مسجد صلاح الدین ایوبی وہاں کا لینڈ مارک ہے جو اسرائیلی دشمن کے خلاف فلسطینیوں کی نصرت اور فتح کی بھی علامت سمجھی جاتی ہے۔ یہ مسجد اپنے خوبصورت اور منفرد طرز تعمیر کے مینار کی وجہ سے مشہور ہے جسے دور دور سے دیکھا جاسکتا ہے۔
العقبہ کے فلسطینی باشندوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ریاست نے مسجد اور اس کے خوبصورت مینار کو ختم کرنے کی کئی بار کوشش کی۔ مگر مقامی فلسطینی آبادی کے عزم استقلال نےصیہونیوں کو ایسی جسارت کی ہمت نہیں دی۔ تاہم صیہونی آئے روز طرح طرح کی چالیں اور منصوبے بناتے ہیں تاکہ مسجد صلاح الدین ایوبی کےمینار اور مسجد کے وجود کو ختم کر دیں۔
مسجد صلاح الدین ایوبی کے ایک معذور نمازی الحاج سامی صادق کے مطابق اسرائیلی فوج نے اسے اس مسجد کا نمازی ہونے کی پاداش میں گولیاں مار کر زخمی کر دیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ العقبی گاؤں سنہ 1967ء کی صیہونی جنگ کے بعد اب تک پورے قد کے ساتھ دشمن کے سامنے کھڑا اور فلسطینیوں نے دشمن کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔
تعمیرات پر پابندیاں
العقبہ گاؤں کے اہل حل وعقد نے ایک کونسل قائم کر رکھی ہے جو اکثر گاؤں کے ایک بڑے درخت کے نیچے جمع ہوتے اور مقامی مسائل پر بات کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صیہونی ریاست نے مقامی فلسطینی آبادی پر گھروں کی تعمیر اور توسیع پسند پابندی عائد کررکھی ہے۔ یہ پابندی مقامی فلسطینیوں کو ھجرت پر مجبور کرنے کا ایک مکروہ صیہونی حربہ ہے۔
دوسری جانب صیہونی حکومت یہودی تنظیمیں مل کرگاؤں میں آباد کاری کے لیے منصوبے بناتے اور یہودیوں کو ہر قسم کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
ستر سالہ ایک مقامی فلسطینی بزرگ الحاج سامی صادق کا کہنا ہے کہ العقبہ ایک مشہور اور معروف جگہ ہے۔ فلسطین کے اندر اور باہر کا کوئی بھی رہنما جب وادی اردن میں آتا ہے تو وہ ضرور اس علاقے میں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ العقبہ گائوں کافی شہرت رکھتا ہے۔ دنیا کے مختلف براعظموں میں اس کے چرچے ہیں۔ اس کے باسی بھی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ شہد کی مکھیوں کے ایک چھتے کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ مربوط رہتے اور قضیہ فلسطین کے لیے عالمی محافل میں آواز بلند کرتے ہیں۔
الحاج سامی کا کہنا ہے کہ دو سال قبل اس قصبے میں مقامی شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پانی کی پائپ لائن بچھائی مگر اسرائیلی فوج نے اسے متعدد بار مسمار کیا ہے۔ ہم نے معاملہ اسرائیلی عدالت میں اٹھایا مگر ہمیں گذشتہ بدھ کو بتایا گیا کہ انہیں قصبے میں مزید تعمیرات کی اجازت نہیں۔