الخلیل (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) مسجد ابراہیمی کا ذکر آتے ہیں ذہن میں اسرائیلی فوج کی بندوقوں کی گن گرج، فلسطینی نمازیوں کی مظلومیت اور اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کے ان گنت واقعات ذہن میں ایک فلم کے منظر کی طرح گردش کرنے لگتے ہیں۔
مسجد ابراہیمی میں نماز کانٹوں پرچلنے اوراپنی زندگی کوخطرے میں ڈالنے سے کم نہیں۔ نماز فجر سے لے کرجمعہ کی نماز تک فلسطینی نمازیوں کو قدم قدم پررکاوٹوں،پابندیوں، الیکٹرانک گیٹس اور دیگر کئی رکاوٹوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ یہ آزمائش الخلیل شہر کے شہریوں بالخصوص مسجد ابراہیمی کے اطراف میں بسنے والوں کی زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ نماز کے اوقات میں اسرائیلی فوج کی بھاری نفری مسجد ابراہیمی کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ کئی بار صیہونی آباد کار اور اسرائیلی فوجی مل کر فلسطینی نمازیوں کو زدو کوب کرتے اور نمازیوں پر تشدد کرتےہیں۔ مسجد ابراہیمی اکثر اسرائیلی فوج کی چھاؤنی کا منظر پیش کرتی ہے۔
نماز فجر کی خصوصیت
مقامی فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ جمعہ کے روز فلسطینی نماز فجر کے وقت ہی مسجد ابراہیمی میں داخل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ جمعہ کا دن مسجد ابراہیمی میں صیہونی آباد کاروں اور فلسطینی نمازیوں کےدرمیان تصادم کا خاص طورپرمنظر پیش کرتا ہے۔ صیہونی آبادکار بھی علی الصبح مسجد ابراہیمی کے اطراف میں جمع ہوجاتے ہیں۔ وہ ٹولیوں کی شکل میں ہاتھوں میں ڈنڈے اور چھرے اُٹھائے مسجد میں آتے اور فلسطینی نمازیوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔
گذشتہ جمعہ کو الخلیل کی تعمیراتی کمیٹی نے بسوں کے ذریعے سیکڑوں نمازیوں کو نماز جمعہ کے لیے جب مسجد پہنچایا تو صیہونی آباد کاروں نے مسجد کو یہودی معبد میں تبدیل کر رکھا تھا۔
فلسطینی شہریوں نے صیہونی آباد کادروں کے جم غفیر کو دیکھ کران کے خلاف احتجاج کیا تو صیہونیوں نے فلسطینیوں کی گاڑیوں پر سنگ باری شروع کردی۔ یہ پہلا واقعہ نہیں، ہرنماز فجر اور ہرجمعہ کو فلسطینیوں کو ایسے حالات کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف فلسطینیوں کا کہنا صیہونی آباد کاروں کی غنڈی گردی اور اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی ان کے عزم کو شکست نہیں دے سکتی۔ صیہونیوں کے مظالم سے ان کے عزم استقلال میں اور بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
نماز کی ادائیگی ایک چیلنج بن گئی
الخلیل شہر کے مفتی اور مسجد ابراہیمی کے امام الشیخ محمد ماھر مسودی نے کہا کہ نماز کی ادائیگی فلسطینی مسلمانوں کے لیے ایک مذہبی فریضہ ہے مگر یہ فریضہ ایک خوفناک چیلنج بن چکا ہے۔ نماز فجر کے وقت بڑی تعداد میں فلسطینی نماز کے لیے مسجد میں آتے ہیں مگر انہیں تھوڑا سا فاصلہ بھی طویل مشکلات کے بعد مکمل کرنا پڑتا ہے۔ انہیں چپے چپے پر رکاوٹوں اور قدغنوں کا سامنا ہے۔
الشیخ مسودی کا کہنا تھا کہ ہم دروس اور خطبات کے ذریعے فلسطینی شہریوں کو مسجد ابراہیمی میں نماز کی ادائیگی کی ترغیب دلاتے رہتےہیں۔ دوسری طرف صیہونی آباد کاروں کی انتہا پسند تنظیمیں مسجد ابراہیمی میں آباد کاروں کو دھاوؤں پر اُکساتی ہیں۔
مسجد ابراہیمی معبد نہیں
مسجد ابراہیمی کے ڈائریکٹر الشیخ ابو اسنینہ نے کہاکہ غاصب صیہونیوں نے حرم ابراہیمی کو یہودی معبد میں تبدیل کررکھا ہے۔ سنہ 1994ء میں مسجد ابراہیمی میں فلسطینی نمازیوں کے وحشیانہ قتل عام کے بعد صیہونیوں نے عملا مسجد ابراہیمی کو یہودی معبد میں تبدیل کررکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ جمعہ کو نماز فجر میں 200 سے 300 کے درمیان فلسطینی نمازی مسجد ابراہیمی میں موجود تھے جب کہ جمعہ کی نماز میں فلسطینی نمازیوں کی تعداد 5000 سے زائد ہوگئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ مسجد ابراہیمی میں فلسطینیوں کی نمازیں بندوقوں کے سائے میں ادا کی جاتی ہیں۔ ایسی کوئی نماز نہیں جس میں اسرائیلی فوجی اور ناپاک صیہونی مسجد بندوقیں لے کر کھڑے ہوجاتےہیں اور فلسطینی ان کے سامنے ان بندوقوں کے سائے میں اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتےہیں۔