غزہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد سیکیورٹی اداروں پر ایک نہتی فلسطینی خاتون پر انسانیت سوزمظالم کا الزام ہے۔
اس معصوم اور نہتی خاتون کا تعارف ’’سھا جبارا‘‘ کے نام سے کیا جاتا ہے۔ 31 سالہ جبارۃ گذشتہ دو ماہ سے زائد عرصے سے فلسطینی اتھارٹی کے عقوبت خانے ’’اریحا‘‘ میں پابند سلاسل ہے۔ اسے عباس ملیشیا نے تین نومبر کو اس کے تین بچوں سے چھین کر زندان میں ڈال دیا۔ اس کا قصور یہ ہے کہ وہ فلسطینی اسیران کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہے جب کہ فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد جلاد صفت ایجنٹوں کا دعویٰ ہے کہ سھا جبارہ فلسطینی اسیران کو ’’غیرقانونی‘‘ طور پر مالی معاونت کرتی رہی ہے۔
سھا جبارۃ کو حراست کے دوران طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں۔ اسے سخت سردی میں برہنہ رکھا گیا۔ بھوکا اور پیاسا رکھا گیا۔ عباس ملیشیا کے جلادوں نے جسمانی ، ذہنی اور نفسیاتی تشدد کے ساتھ ساتھ اس کی عصمت کو بھی نہ بخشا۔ یوں سھا جبارہ نے فلسطینی اتھارٹی کے درندہ صفت جلادوں کے ہاتھوں دو ماہ کے عرصے کے دوران طرح طرح کے ظلم وستم اُٹھائے۔
مسلسل تذلیل اور تشدد
فلسطینی اتھارٹی کی ’’اریحا‘‘ جیل کو غرب اردن میں رام اللہ اتھاٹی کا ’’موت کا گھاٹ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں ڈالے جانے والے فلسطینیوں پر انسانیت سوز جسمانی اور نفسیاتی مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ عباس ملیشیا نے سھا جبارہ کو حراست میں لینے سے قبل اس کی گرفتاری کے عدالت سے وارنٹ تک نہیں لیے۔ وہ مسلسل 22 نومبر 2018ء سے تا دم تحریر بھوک ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کا اب تک جو بھی تذکرہ ہوا تو اس پر جسمانی تشدد ہی کی تفصیلات سامنے آئیں۔ اریحا جیل سے کبھی کوئی اچھی خبر نہیں آئی۔ 14 مارچ 2006ء کو صیہونی فوج نے اس عقوبت خانے پر چھاپہ مارنے کے بعد وہاں پر موجود عوامی محاذ کے رہنما احمد سعدات اور اس کے ساتھیوں کو نہایت بے رحمی کے ساتھ حراست میں لیا۔
جبارہ کا خاندان اور اس کے وکلاء ان تمام الزامات کو قطعی بے بنیاد قرار دیتے ہیں جو عباس ملیشیا نے سھاجبارہ کے خلاف گھڑ رکھے ہیں۔ سھا جبارہ کے پاس فلسطینی شہریت کے ساتھ ساتھ امریکا اور پاناما کی شہریت بھی ہے۔ اس لیے اس کا معاملہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اُٹھایا ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق عباس ملیشیا کے جلادوں نے سھا کی بار بار عصمت ریزی کی ہے اور اس کے خلاف عائد کردہ کوئی الزام بھی ثابت نہیں کر سکے ہیں۔
اسیرہ جبارہ کے وکیل مہند کراجہ کا کہنا ہے کہ عباس ملیشیا نے الزام عائد کیا ہے کہ سھا جبارہ غیر قانونی طور پر فلسطینی اسیران کے لیے فنڈز جمع کرتی رہی ہے۔ یہ الزام قعطی بے بنیاد اور حقائق کے برعکس ہے۔ سھا جبارہ کو سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
جعلی دستاویز
سھا کے وکیل نے بتایا کہ عباس ملیشیا نے ان کی موکلہ کے خلاف الزامات کے ساتھ ساتھ جس جعلی دستاویز کا حوالہ دیا ہے وہ سب بے بنیاد ہے اور خلاف قانون ہے۔
مہند کراجہ کا کہنا ہے کہ عباس ملیشیا نے سھا کی گرفتاری کے لیے عدالت سے اجازت لینے کا بھی بے بنیاد دعویٰ کیا ہے۔ عباس ملیشیا نے جو دستاویز دکھائی ہے اور اس پر عدالت یا پراسیکیوٹر کی مہر ثبت نہیں۔