(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ )رام اللہ کے شمالی قصبے عطارا کے ایک پرانے اور قدیم طرز کے ایک گھر کی دیواروں پر خوشیاں اور مسرتیں رقص کر رہی ہیں،اس گھر کے مکین اس وقت ایسے گہرے اطمینان میں ہیں جیسے کسی بڑی اور مشکل منزل کا حصول ممکن ہو گیا ہو۔انکے چہرے بتا رہے ہیں کہ کوئی خواب تھا جس کی تعبیر ممکن ہوئی ہے،کوئی طویل مسافتوں والی منزل تھی جس کے آخری زینے پر قدم رکھ دیا ہو،یا زندگی میں ہر سو اندھیرا تھا اور روشنی کی ایک کرن دکھا ئی دی ہو۔
اس گھر کے مکین بھی ارض فلسطین پر رہنے والے باقی ماندہ فلسطینیوں کی طرح کرب،رنج،الم اور مصائب بھری زندگی گزار رہے تھے،اپنی جان و مال ہر وقت ہتھیلی پر رکھ کر گھومنا کے صہیونی شکاری کسی درندے کی مانند فلسطینیوں کے خون کی پیاس میں مبتلا رہتے ہیں۔سب کچھ ویسا ہی تھا کہ اچانک ایک جفا کش،محنتی اور پدرانہ شفقت سے معمور باپ کی برسوں کی محنت کا نتیجہ کچھ ایسے سامنے آیا کہ اب وہ ہر طرف سر اٹھا کر چلے گا۔
کسی بھی باپ کا سب سے بڑا فخر اسکی اولاد بلخصوص بیٹیاں ہوتی ہے۔اگر وہ کچھ اچھا یا غیر معمولی کرتی ہے جو انکو سب میں ممتاز اور الگ کرتا ہے تو جس شخص کے جھریوں بھرے چہرے پر سب سے زیادہ اطمینان ہوتا ہے وہ انکا باپ ہوتا ہے،کچھ ایسی ہی کیفیت اس گھر کے سربراہ کے چہرے پر بھی ہے جو انتہائی فخر سے اپنی بیٹیوں کی جانب دیکھ کر مسکرائے جا رہا ہے۔
یہ کہانی ہے رام اللہ کے بدر ابو نجم کی،جس کا نام اپنی بیٹیوں کے کارنامے کی بدولت فلسطینی اور دیگر عربی ذرائع ابلاغ میں گردش کر رہا ہے،لوگ اسکو جاننے لگے ہیں،احباب کا ایک تانتا ہے جو اسکے گھر کا رخ کر رہاہے تا کہ اسکو مبارکباد دے سکے۔بدر کی تین جڑواں بیٹیاں گزشتہ روزآنے فلسطین میں ہونے والے میٹرک کے امتحانات کے نتائج میں شاندار نمبروں سے پاس ہوئی تھیں جن میں جنان،راحف اور لیوار نے امتیازی پوزیشنز حاصل کی ہیں۔
وہ مقامی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بہت جذباتی تھے،انکا کہنا تھا کہ ان بچیوں کی پیدائش کے لیے انہوں نے اور انکی اہلیہ نے بہت انتظار کیا تھا،وہ شادی کے بعد سے مسلسل اولاد کی پیدائش کے منتطر تھے۔پھر انکو بیماری کے باعث ایک سرجری بھی کروانی پڑی،اور اس سرجری کے بعد بھی پانچ سال کے طویل عرصے تک ہمیں اولاد کے حصول کے لیے دعائیں کرنی پڑیں کو خدا کے بارگاہ میں کچھ ایسے قبول ہوئیں کہ اس نے ہمیں ایک ساتھ چار بیٹیوں سے نوازا۔
ماضی کی یادوں میں کھوئے ہوئے بدر نے پر نم آنکھوں کے ساتھ بتایا کہ وہ ان کی زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ تھا۔انکے اور انکی اہلیہ کے پیر خوشی کے مارے زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔
امتحانی نتائج میں اعلی پوزیشنر حاصل کرنے والی تینوں بہنوں کے چہروں پر بھی خوشی دیدنی تھی،انہوں کا کہنا تھا کہ نتیجہ ان کی توقع کے عین مطابق تھا،کیوں کہ راتوں کو جاگ کر کی گئی پڑھائی رائیگاں جا ہی نہیں سکتی تھی۔ انکا کہنا تھا کے مزید حصول علم کے لیے انکے آٗئندہ زندگی میں بہت سے خواب ہیں اور انکے والدین ان خوابوں کی تکمیل میں انکا بھر پور ساتھ دے رہے ہیں۔اور وہ کبھی بھی اپنے والدین کو مایوس نہیں کریں گی۔
ان بچیوں کے چہرے پر موجود خوشی اور انکی آنکھوں میں چمکنے والے خواب اس بات کا پتا دے رہے تھے کہ جن قوموں میں حصول علم سب سے بڑی ترجیح ہو،ان قوموں کو غاصب قوتیں زیادہ دیر تک بندوق کے زور پر اپنا محکوم بنا کر نہیں رکھ سکتیں۔
رپورٹ
تحسین عزیز