غزہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطین میں اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی میں آئے روز فلسطینی شہید اور زخمی ہوتے ہیں۔ جمعہ کے روز 24 سالہ محمود النباھین کو وسطی غزہ میں البریج پناہ گزین کیمپ کے قریب اسرائیلی فوج نے گولیاں مار کر شہید کردیا۔
محمود النبا ھین کی مختصر زندگی بھی خوبصورت واقعات سے بھرپور ہے۔ النھاھین جب تک زندہ رہے تب تک اپنے اقارب اور دوستوں میں اپنی مسکراہٹ کی وجہ سے مشہور رہے۔ ہرایک سے مسکرا کرخندہ پیشانی سے ملنا ان کا طرہ امتیاز تھا۔
محمود النباھین کے بڑے بھائی 29 سالہ محمد النباھین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے ایک اہم رکن سے محروم ہوگئے ہیں۔ وہ محمود باقاعدگی کے ساتھ غزہ کی پٹی میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کرتا۔ وہ نہ صرف احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش رہتا بلکہ باقاعدگی کے ساتھ مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کا پابند تھا۔ وہ اکثر روزے سے ہوتا۔ جس روز اس نے جام شہادت نوش کیا تو اس دن بھی وہ روزے سے تھا۔
مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ محمود النباھین کم عمری کے باوجود زخمیوں کی مدد کے لیے سب سے پہلے پہنچتا۔ سنہ 2014ء کی جنگ میں جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں خون آشام بمباری کی تو اس بمباری کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کو اُٹھانے اوراسپتال لے جانے میں بھی وہ پیش پیش ہوتا۔
شہید کے والد محمود بربناطہ نے اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر کااظہار کیا اور کہا ہے کہ اس کا بیٹا بہادر اور نڈر تھا۔ ہر طرح کے حالات میں ہرایک کی مدد کو پہنچنا اس کا شیوہ بن چکا تھا۔ غزہ میں حق واپسی ریلیوں میں شرکت کی وجہ سے وہ اسرائیلیوں کی نظروں میں بھی آگیا تھا۔
شہید کے والد نے بتایا کہ اس کا بیٹا اعتکاف اور قیام اللیل کا پابند تھا۔ رمضان المبارک کے دوران وہ نہ صرف خود قیام اللیل اور اعتکاف کرتا بلکہ اپنے دوسرے دوستوں کو بھی اس کی ترغیب دلاتا۔ گھر والوں کو بھی عبادت پرابھارتا۔
نہ ختم ہونے والے واقعات
شہید محمود النباھین کی زندگی کے ان گنت قابل ذکر واقعات ہیں۔ خوش خلقی، اس کی شخصیت کی پہچان بن گئی تھی۔ وسطی غزہ میں جب شہید محمود النباھین کا جنازہ گھر سے نکلا تو اس میں لاکھوں کے مجمعے سے یہ ثابت ہوا کہ غزہ میں لوگ ان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔
شہید کے ایک دوست فتحی ابو جری نےکہا کہ جب سے محمود کے ساتھ میرا تعارف ہوا ہے اس کے بعد ہم نے ایک ساتھ زندگی گذاری۔ اس نے غربت میں زندگی گذاری اور غربت کی حالت میں اس کی موت ہوئی مگر اس کا دل غنی تھا۔ وہ اپنے دوستوں، اہل خانہ اور اہل علاقہ سے ٹوٹ کر محبت کرتا۔ اس نے کہا کہ میرے 8 بھائی ہیں اور میں نے النباھین کو اپنا 9واں بھائی بنا رکھا تھا۔
اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے رہنما جمال الھندی کا کہنا ہے کہ محمود النباھین جماعت کا ایک مخلص کارکن تھا۔ ہر وہ آنکھ جس نے اسے دیکھا وہ اس کی بے رحمانہ موت پر روئی۔ عبادت کا پابند اور خدمت خلق پر کاربند نوجوان غزہ کے نوجوانوں کے لیے ایک عملی مثال تھا۔ اس کی مسکراہٹ، خدمت خلق کا جذبہ اور پرخلوص عبادت باقی رہ گئی اور وہ خود ہمیں داغ مفارقت دے گیا۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)