مقبوضہ بیت المقدس (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) مسجد اقصیٰ کو یہودیانے کی سازشوں کے تسلسل کی ایک نئی کڑی قبلہ اوّل کے تاریخی دروازے ’’باب الرحمۃ‘‘ بھی شامل ہے جو اس وقت اسرائیلی ریاست کی طرف سے ایک نیا نشانہ بنایا گیا ہے۔
دو روز پیشتر قابض اسرائیلی فوجیوں، پولیس اہلکاروں اور دیگر اداروں کے اہلکاروں نے ’’باب الرحمۃ‘‘ کو تالےلگانے کے بعد وہاں پر موجود نمازیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ مقدس مقام میں گھسیٹا گیا۔ اس سارے اشتعال انگیز اور دہشت گردانہ واقعے کا مقصد مسجد اقصیٰ کی زمانی اور مکانی تقسیم کی راہ ہموار کرنا اور مسلمانوں کے قبلہ اوّل کو یہودیت میں تبدیل کرنا ہے۔
فلسطینی محکمہ اوقاف کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے ’’باب الرحمۃ‘‘ کو خار دار تاریں لگا کر بند کردیا اور اس کی مشرقی سمت میں قبلہ اوّل تک رسائی روک دی گئی۔
فلسطینی محکمہ اوقاف اور مذہبی امور کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے ’’باب الرحمۃ‘‘ کو تالے لگائے اور اندر موجود فلسطینیوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ باہر کھڑے فلسطینیوں پر لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر اشک آور گیس کی شیلنگ کی گئی جس کے نتیجے میں کئی فلسطینی زخمی ہوگئے۔ اسرائیلی فوج نے متعدد فلسطینیوں کو حراست میں بھی لے لیا۔
مسجد اقصیٰ کی مکانی تقسیم
مسجد اقصیٰ کے امور کے تجزیہ نگار رضوان عمرو نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے ’’باب الرحمۃ‘‘ کو منگل کے روز تالے لگائے مگر وہ عملا گذشتہ جمعہ کے روز سے قبلہ اوّل اور ’’باب الرحمۃ‘‘ کو بند کرچکے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج ’’باب الرحمۃ‘‘ کے حوالے سے جو بھی کھیل کھیل رہی ہے اس کا اصل مقصد مسجد اقصیٰ کی مکانی تقسیم کی سازش کو آگے بڑھانا ’’باب الرحمۃ‘‘ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیت المقدس کے شہریوں کو ’’باب الرحمۃ‘‘ میں جمع ہو کر احتجاج سے روکنا شرمناک اقدام اور مقدس مقام کی مکانی تقسیم ہے۔
فن تعمیر کی یادگار
’’باب الرحمۃ‘‘ مسجد اقصیٰ کے جنوب میں باب الاسباط اور مشرقی دیوار سے 200 میٹر دور ہے۔ پرانے بیت المقدس کی مشرقی دیوار کا حصہ سمجھے جانے والے اس مقام کو فن تعمیر کی بھی ایک تاریخی یاد گار سمجھا جاتا ہے۔
’’باب الرحمۃ‘‘ مسجد اقصیٰ کے پرانے دروازوں میں سے ایک ہے۔ اسے خلافت بنو امیہ کےدور میں تعمیر کیا گیا اور اس کے بانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے عبدالملک بن مروان کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔
’’باب الرحمۃ‘‘ ایک باب عظیم ہے جس کی اونچائی 11 اعشاریہ 5 میٹر ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے مسجد اقصیٰ کےاندر سے ایک سیڑھی جاتی ہے۔ اس دروازے کے دو پاٹ ہیں اور ان دونوں کے درمیان پتھر کا ایک ستون قائم ہے۔
’’باب الرحمۃ‘‘ کے نام
مسجد اقصیٰ کے تاریخی دروازے ’’باب الرحمۃ‘‘ کے کئی اور نام بھی ہیں۔ ان میں البوابۃ الدھریہ، باب توما، باب الحکم، باب القضا اور فرنگی اور مغربی باب الذھبی کا نام دیتے ہیں جب کہ باب الرحمۃ اور باب التوبہ بھی کہا جاتا ہے۔
’’باب الرحمۃ‘‘ کے سامنے دو جلیل القدر صحابہ کرام حضرت شداد بن اوس اور عبادۃ بن صامت الخزرعی رضی اللہ عنھما بھی آسودہ خاک ہیں۔
باب الرحمۃ قبرستان
مسجد اقصیٰ کی مغربی سمت میں داخل ہوتے ہی ’’باب الرحمۃ‘‘ کی عمارت آتی ہے۔ یہ جگہ ذکر اذکار، نماز، دعاؤں اور دیگر عبادات کےلیے مختص ہے۔ امام غزالی جب بیت المقدس میں کچھ عرصہ قیام پذیر ہوئے تو انہوں نے اسی جگہ اقامت اختیار کی تھی۔ وہ مسجد اقصیٰ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے انہوں نے اپنی کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ کا بیشتر حصہ مسجد اقصیٰ میں تصنیف کیا۔
سنہ1992ء کو اسلامک کلچرل کمیٹی قائم ہوئی تو اس کا دفتر دعوتی سرگرمیوں کے لیے ’’باب الرحمۃ‘‘ ہی کو مختص کیا گیا۔ سنہ 2003ء میں اسرائیلی ریاست نے اس کمیٹی پر پابندی عائد کردی تھی۔
’’باب الرحمۃ‘‘ صرف دروازہ ہی نہیں بلکہ اس عمارت میں ایک بڑا ہال، ایک لائبریری اور دیگر دفاتر بھی ہیں مگر سنہ 2003ء میں اسرائیلی فوج نے اس جگہ پر ’’دہشت گردانہ‘‘ سرگرمیوں کا الزام عائد کرکے فلسطینیوں کو وہاں کسی بھی قسم کی سرگرمی سے روک دیا تھا۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)