رام اللہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) اسرائیلی ریاست نے مقبوضہ بیت المقدس کے نواحی علاقے’’الخان الاحمر‘‘ میں بسنے والےدرجنوں فلسطینی خاندانوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے طاقت سمیت ہرحربہ استعمال کیا مگراسرائیلی ریاست کے تمام ترحربے بری طرح ناکام ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے اس توسیع پسندانہ پروگرام کی ناکامی میں ’’الخان الاحمر‘‘ کی مقامی فلسطینی آبادی، فلسطین کے دوسرے شہروں سے آنے والے شہری اور انسانی حقوق کے مندوبین کا کلیدی کردار ہے۔
سال 2018ء کے آخری چار ماہ کے دوران ایک طرف اسرائیلی فوج، پولیس، انٹیلی جنس ادارے اور دیگر نے ’’الخان الاحمر‘‘ کو خالی کرانے اور فلسطینیوں سے قصبہ چھیننے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا۔ مگر فلسطینی شہریوں اور امدادی کارکنوں کی ثابت قدمی نے اسرائیلی غاصبوں کے پاؤں اکھاڑ دیے مگر فلسطینی شہریوں کو ’’الخان الاحمر‘‘ سے باہر نہیں نکالا جاسکا۔ اب بھی اسرائیلی ریاست ’’الخان الاحمر‘‘ پرقبضے اور وہاں پررہنے والے فلسطینیوں کو نکال باہر کرنے کے لیے تمام زور صرف کررہی ہے۔
فلسطینی شہریوں اور سماجی کارکنوں کے مسلسل احتجاج کو ختم کرنے کے لیے اسرائیلی فوج نے کریک ڈاؤن اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کردیا۔
قصبے میں فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان تصادم روز کا معمول بن چکا ہے۔آئے روز اسرائیلی فوج فلسطینیوں کے گھروں پرچڑھائی کرتی اور انہیں مسمار کرتی ہے۔ دشمن فوج نے فلسطینیوں کے بیشتر مکان مسمار کردیے ہیں اور 190 فلسطینی اس وقت بے گھر ہیں۔
پانچ ستمبر کواسرائیلی سپریم کورٹ نے فوج کو ’’الخان الاحمر‘‘ کو مسمار کرنے اور وہاں سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی اجازت دی۔ اس قصبے میں نہ صرف درجنوں فلسطینی خاندان آباد ہیں بلکہ آس پاس کی بستیوں کا اسکول بھی اسی علاقے میں ہے جس میں 170 طلباء زیرتعلیم ہیں۔
’’الخان الاحمر‘‘ میں فلسطینی بدوؤں کی پہلی آباد کاری 1953ء میں ہوئی۔ یہ لوگ جزیرہ نما النقب سےاسرائیلی فوج کی جانب سے نکالے گئے جس کے بعد وہ مجبورا اس علاقے میں آباد ہوگئے۔
اس علاقے کو اسرائیل نے اوسلو معاہدے کی تقسیم کے تھت سیکٹر ’’ای ون‘‘ میں شامل کر رکھا ہے۔
اسرائیلی ریاست کا اصل ہدف ’’الخان الاحمر‘‘ کی 12 ہزار دونم قیمتی اراضی پرقبضہ کرنا ہے۔ یہ اراضی نہ صرف ’’الخان الاحمر‘‘ کی ہے بلکہ اطراف کی بستیوں کا رقبہ بھی اس میں شامل ہے۔اسرائیلی ریاست غرب اردن کی طرف مشرقی بیت المقدس کو بھی فلسطینی وجود سے خالی کرنا چاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’الخان الاحمر‘‘ اس کا ٹارگٹ ہے۔
’’الخان الاحمر‘‘ کا معرکہ جاری ہے
تنظیم آزادی فلسطین کے شعبہ مزاحمت صیہونی آباد کاری اور نسلی دیوار کے چیئرمین ولید عساف نے ’’اناطولیہ‘‘ نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’الخان الاحمر‘‘ کا معرکہ مسلسل جاری ہے۔ یہ معرکہ اس وقت فلسطینیوں کی بقاء کا مسئلہ بن چکا ہے۔ فلسیطنی قوم کو اپنے وطن میں اپنے حقوق کا ہرصورت میں دفاع کرنا ہے۔ اسی میں ’’الخان الاحمر‘‘ کا دفاع بھی شامل ہے۔
ایک سوال کے جواب میں عساف نے کہا کہ ’’الخان الاحمر‘‘ کا دفاع 46 فلسطینی بدو آبادیوں کا دفاع ہے جنہیں اسرائیلی ریاست مختلف حیلوں بہانوں سے ہجرت پرمجبور کرنا چاہتی ہے۔ ان میں سے بہت سی بستیاں جزیرہ نما النقب میں واقع ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’الخان الاحمر‘‘ کا دفاع بیت المقدس کا دفاع ہے اور بیت المقدس فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہے۔ ’’الخان الاحمر‘‘ الاحمر القدس کا مشرقی دروازہ ہے اگر اس پرصیہونی قبضہ کرتے ہیں تو وہ مشرقی سمت سے غرب اردن کی تقسیم کی سازش کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔