اسرائیل سے شائع ہونے والے مشہور اخبار ہیریٹز نے جرنلسٹ خاتون 47 سالہ الانہ دیان کا تفصیلی انٹرویو شائع کیا ہے، اس انٹرویو کو ویکلی پریس نے بھی شائع کیا ہے۔
اسرائیلی اخبار کو دئیے گئے انٹرویو میں دیان کے تاثرات جذب کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ کیسے پاکستان پہنچی، کیسے ایبٹ آباد کے کمپاؤنڈ تک گئی، سکیورٹی حکام نے کیا کچھ سوالات کئے، کیسے اس نے مقامی فوٹو گرافر، مقامی پروڈیوسر وغیرہ کو ہائر کرکے ٹیم تیار کی، تاکہ اسامہ بن لادن کے قتل کی ڈاکومنٹری کا اصل حصہ قلمبند کیا جا سکے۔
جرنلسٹ الانہ دیان کا کہنا ہے کہ وہ ارجنٹائن سے بحیثیت ایک ٹورسٹ روانہ ہوئی، اس کی جیب میں ارجنٹائن کا پاسپورٹ تھا، پیشہ وکالت درج تھا، ایئرپورٹ پر پہنچ کر جب وہ امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچی تو اس سے کسی قسم کے سوالات نہیں کئے گئے، باہر نکلی تو فائیو اسٹار ہوٹل کا آدمی اسے لینے کے لئے موجود تھا، وہ آرام سے بلا رکاوٹ ہوٹل پہنچی، کمرہ میں پہنچا دی گئی، لیکن کمرہ میں اس نے سستانے کے انداز میں بستر پر دراز ہو کر موندی آنکھوں سے جائزہ لیا کہ نگرانی کرنے والے آلات کہاں کہاں ممکنہ طور پر نصب ہو سکتے ہیں، پھر وہ اٹھی، واش روم سے تازہ دم ہو کر نکلی، عمومی لباس پہنا، نیچے اتر کر لابی میں گئی چہل پہل تھی، پسند کا آرڈر دیا، وقت گزارا، لوگوں کو خوش باش پایا۔
دوسرے روز الانہ دیان نے اپنے مقامی ٹیم ممبران کو فون کئے، آمد کا بتایا، وہ فوراً ہی ہوٹل پہنچ گئے، اس نے تفصیل سے ٹیم کا جائزہ لیا، آمد کا مقصد انہیں معلوم تھا، انہی لوگوں نے رینٹ اے کار وغیرہ کا بندوبست کیا۔ الانہ دیان کے مطابق، دوسرے روز ہم اسلام آباد سے اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ جا پہنچے، میں عمارت کا جائزہ لینے میں مصروف تھی کہ پاکستانی فوٹو گرافرز نے کہا کہ یہ لوگ تمہارا پاسپورٹ مانگ رہے ہیں، میری روح کانپ اٹھی، وہ مجھے ایک کمرہ میں لے گئے، پاسپورٹ کا جائزہ لیا، فوٹو کاپی بنوائی، میں نے اپنی لاء فرم کا بزنس کارڈ سامنے رکھ دیا اور اپنے آپ کو ٹورسٹ ظاہر کیا، عمارت کے اندر جانے کی اجازت مانگی، ان کی شاید نظر میرے کیمرے پر نہیں پڑی، حیرانی اس وقت ہوئی جب سکیورٹی والوں نے عمارت میں جانے کی اجازت دے دی۔
دیان کے مطابق وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ اسامہ کی رہائش والے کمپاونڈ میں گئی، کام مکمل کیا، اندر سے میں بیحد تھرلڈ تھی، پاکستانی ٹیم کے ارکان نے مہارت اور پھرتی کے ساتھ ہدایات کے مطابق بہترین کام کیا، ہم سب عمارت سے باہر آ گئے، کار میں بیٹھ کر دور سے لانگ شاٹس شوٹ کئے اور کامیاب دن گزار کر ہوٹل جا پہنچے، دوسرے دن میری ٹیم نے ایک ایسے پاکستانی صحافی سے ملاقات کروائی، جس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ میرا نام جمال اسماعیل ہے اور میں فلسطینی ہوں، میری تو جان سی نکل گئی، میں پوچھنے ہی لگی تھی کہ فلسطین کے کون سے علاقہ سے لیکن فوراً ہی یاد آیا کہ میں تو ارجنٹینا سے آئی ہوں۔ میں نے جمال سے پوچھا کب سے پاکستان میں رہتے ہو؟ جواب ملا تیس سال سے۔
جمال اسماعیل ایک ایسا صحافی ہے جو اسامہ بن لادن سے نہ صرف ملاقات کر چکا ہے بلکہ اس کا تفصیلی انٹرویو بھی کر چکا ہے، یہ جان کر کہ جمال تیس سال سے پاکستانی ہو چکا ہے مجھے بے حد سکون ہوا۔ میری ٹیم سے میری گفتگو انگریزی میں ہوتی تھی یا انہوں نے مجھے اپنی پروڈیوسر سے اسپینش میں گفتگو کرتے ہوئے سنا، انہیں ہرگز احساس نہ ہوا کہ میں اسرائیلی ہوں، البتہ انہیں یہ بخوبی معلوم تھا کہ میں ارجنٹینا سے آئی ہوں، صحافی ہوں، اسامہ بن لادن پر ڈاکومینٹری بنا رہی ہوں۔
پاکستانی صحافی متعدد ممالک کے صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کے عادی ہیں، انہیں اپنے معاوضہ سے دلچسپی ہوتی ہے، وہ اپنے گاہک سے سوال جواب نہیں کیا کرتے، اعتماد کا بھرم رکھتے ہیں، تاکہ اضافی انٹرنیشنل بزنس ملے، اس طرح اسرائیلی صحافی الانہ دیان پاکستان کا کامیاب دورہ مکمل کر کے واپس اسرائیل پہنچ گئی۔ اسرائیلی صحافی اعتماد سے چلیں تو وہ باآرام بحفاظت پہنچ بھی گئیں۔
اس ساری کہانی میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی اداروں کو اس اسرائیلی صحافی کی حقیقت معلوم ہوئی؟ اگر ہوئی تو اس پر اقدامات کیے گئے۔؟ یہ تو ایک صحافی ہے جس نے اپنے ملک میں جا کر پاکستانی اداروں کی اہلیت کا بھانڈا پوڑا، جس سے ہمیں آگاہی ملی، لیکن پتہ نہیں کتنے ایسے اور لوگ ہیں، جو مختلف ناموں پر ویزے لیکر پاکستان میں گھسے ہوئے ہیں، ریمنڈ ڈیوس کی مثال آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی تھی۔ آج ملک جن بحرانوں سے دوچار ہے ان میں سکیورٹی کی ابتر صورتحال سرفہرست ہے، دیان جیسی اسرائیلی جاسوں کو اپنے مطلب کے شکم پرستوں کی اچھی خاصی تعداد میسر آ جاتی ہے، یہ لوگ ملک اور اپنا دین بیچ کر ہر کام کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ انہیں یہ یقین بھی ہو جائے کہ فلاں شخص کسی خاص ایجنڈے کے تحت آیا ہے، لیکن پیسے کا لالچ ان کی حب الوطنی سلا دیتا ہے۔
بشکریہ :اسلام ٹائمز
لمحہ فکریہ ہے