صہیونی سیاسی ذرائع کے مطابق امریکی انتظامیہ نے اسرائیلی انٹیلی جنس کے وزیر ڈان میریڈور کے منصوبے کی حمایت کر دی ہے۔ اس منصوبے کے مطابق 26 ستمبر سے سرحدوں پر واقع یہودی بستیوں میں گھروں کی تعمیر شروع کر دی جائے گی، یاد رہے کہ اسرائیل کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر پر لگائی گئی عارضی پابندی اسی تاریخ سے ختم ہو رہی ہے۔ سیاسی ذرائع نے عبرانی زبان میں شائع ہونے والے اخبار ’’معاریف‘‘ کو بتایا ہے
کہ واشنگٹن نے یہودی بستیوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سوچ کو قبول کر لیا ہے، یہودیوں بستیوں میں ایک بستیاں وہ ہیں جو اسرائیل اور فلسطین کے مابین ہمیشہ کے لیے تنازع ختم کرنے کے امن معاہدے کے بعد بھی اسرائیل کے پاس رہیں گی، یہ دراصل وہ بستیاں ہیں جو گرین لائن ( 1967ء سے قبل کی قائم کردہ حدود ) سے ملحق ہیں، واشنگٹن نے ان آبادیوں میں یہودیوں کے لیے مزید گھروں کی تعمیر کو تسلیم کر لیا ہے۔ جبکہ دوسری بہودی بستیاں وہ ہیں امن معاہدے کے بعد جہاں سے اسرائیل کو نکلنا ہو گا لہذا ان علاقوں میں مزید یہودی آباد کاری نہیں کی جائے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ اس ضمن میں امریکا اور اسرائیل کے مابین بہت سے رابطے اور کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں، ان رابطوں کا مقصد ایسے مناسب فارمولے کی تلاش ہے جس کے مطابق اسرائیل اور فلسطین کے مابین اگلے بدھ سے براہ راست مذاکرات شروع کروائے جا سکیں۔ قبل ازیں اسرائیلی وزیر خارجہ اعلان کر چکے ہیں کہ 1600 یہودی گھروں کی تعمیر کی منظوری ہو چکی ہے۔ اسی طرح مزید یہودی آبادکاروں کے لیے مزید 2000 گھروں کی تعمیر بھی پابندی کا دورانیہ ختم ہوتے ہی شروع کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے اسرائیل اور فلسطین کے مابین اتفاق رائے تک پہنچنے کے امکان کو مشکل بھی قرار دیا تھا۔ واضح رہے کہ ایک جانب اسرائیل کی طرف سے یہودی بستیوں کی تعمیر کا پختہ ارادہ اور امریکا کی جانب سے اس کی حمایت کی خبریں آ رہی ہیں دوسری جانب فلسطین کے غیر آئینی صدر اسرائیل کے ساتھ بے سود مذاکرات کی رٹ چھوڑنے کا نام لیتے دکھائی نہیں دیتے ان کا حالیہ بیان یہ منظر عام آیا ہے کہ اگر ایک فیصد کامیابی کا امکان بھی نظر آیا تو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات ضرور کیے جائیں گے