فلسطینی مجلس قانون ساز کے ڈپٹی اسپیکر ڈاکٹر احمد بحر نے صدر محمود عباس پر زور دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ، امریکا، روس اور یورپی یونین پر مشتمل گروپ چار کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کا مطالبہ مسترد کر دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گروپ چار کے مطالبات تسلیم کرنا سیاسی خود کشی اور قومی شکست تصور کی جائے گی۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ممتاز فلسطینی سیاست دان اور حماس رہ نما ڈکٹر احمد بحر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ گروپ چارکی باتوں میں آنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ محمود عباس کو چاہیے کہ وہ صہیونی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے بیرونی دباؤ مسترد کر دیں۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی گروپ چار اور دیگرعالمی طاقتیں صدرمحمود عباس کو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات شروع کرانے کے لیے بلیک میل کرتی آئی ہیں اور محمود عباس بھی عالمی دباؤ کے بعد صہیونی حکومت کے ساتھ بے سود مذاکرات کرتے رہے ہیں۔
مذاکرات کے اس بیس سالہ عرصے میں ایک موقع بھی ایسا نہیں آیا کہ بات چیت کے نتیجے میں فلسطینیوں کے حقوق انہیں حاصل ہوئے ہوں۔
ڈاکٹربحر نے کہا کہ اس وقت فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت اور اتحاد کی ضرورت ہے نہ کی صہیونی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی۔ محمود عباس کو چاہیے کہ وہ فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کے لیے بات چیت کا عمل شروع کریں اور وہ تمام رکاوٹیں دورکریں جو مفاہمت کی راہ میں حائل ہیں۔
مجلس قانون ساز کے اسپیکر کا کہنا تھا کہ نعرے لگانے سے مفاہمت کبھی نہیں ہو سکتی۔ فتح کی مرکزی قیادت اب تک مفاہمت کے لیے صرف زبانی کلامی دعوے کرتی رہی ہے عملا اس طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا ہے۔ اس لیے فتح کی مرکزی قیادت اور صدر محمود عباس کو چاہیے کہ وہ دشمن کے ساتھ مذاکرات کے بجائے قوم کی صفوں کو متحد کریں۔
خیال رہے کہ حال ہی میں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے سرگرم گروپ چار نے فلسطینی صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو پر زور دیا ہے کہ وہ گذشتہ ایک سال سے تعطل کا شکار مذاکرات دوبارہ شروع کریں۔ محمود عباس جنہوں نے تاحال تو اسرائیل سے مذاکرات بحال کرنے کا اعلان نہیں کیا تاہم وہ مختلف مواقع پر صہیونی حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔