اس طالبہ کو اسرائیلیوں پر حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس پر فلسطینیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا اور اس تشویش کا اظہار کیا تھا کہ صہیونی حکام نے اب مفروضوں کی بنیاد پر بچوں اور طالبات کو بھی گرفتار کرنا شروع کردیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق مقبوضہ مغربی کنارے کے قصبے طولکرم سے اطلاع دی ہے کہ طالبہ ملاک الخطیب کے والدین،عزیز واقارب اور قصبے کے مئیر نے اس کا استقبال کیا ہے۔اس کے بعد طالبہ کو وہاں سے چالیس کلومیٹر دور واقع آبائی گاؤں بیطین لے جایا گیا ہے۔
اس طالبہ کو اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے 31 دسمبر کو اسکول سے گھر واپسی کےوقت گرفتار کر لیا تھا۔اس کو ایک فوجی عدالت نے دوماہ کے لیے جیل بھیج دیا تھا۔ فلسطینیوں کے قیدی کلب کا کہنا ہے کہ طالبہ کی کم عمری کی وجہ سے اس کی دو ہفتے کی سزا معاف کر دی گئی تھی۔
اسرائیلی استغاثہ کے مطابق اس طالبہ نے ہاتھ میں ایک پتھر پکڑ رکھا تھا۔ وہ اس نے اپنے گاؤں کے نزدیک سڑک پر سے گزرنے والی کاروں پر پھینکنا تھا۔اس سڑک کو یہودی آباد کار آمد ورفت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اس پر یہ بھی من گھڑت الزام عاید کیا گیا تھا کہ اس کے پاس ایک چاقو تھا اور اس نے گرفتاری کی صورت میں سکیورٹی اہلکاروں کو گھونپنا تھا۔
فلسطینی طالبہ کی گرفتاری کے وقت اسرائیلی فوج کی ترجمان نے کہا تھا کہ اس کو پلی بارگین کے بعد قصور وار قرار دیا گیا تھا لیکن اس کے والد نے اس موقف کو مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ اگر چودہ سالہ لڑکی کے ارد گرد اسرائیلی فوجی ہوں گے تو وہ کسی بھی چیز کا اعتراف کر لے گی۔ اگر اس پر جوہری ہتھیار رکھنے کا الزام عاید کیا جاتا تو وہ اس کو بھی قبول کرلے گی۔ طالبہ ملاک کی گرفتاری پر میڈیا نے ان کے گھر پر دھاوا بول دیا تھا۔ لڑکی ہونے کے ناتے ان کی گرفتاری کی خوب تشہیر کی گئی تھی۔
انسانی حقوق کی ایک تنظیم دفاع برائے اطفال فلسطین کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل غرب اردن سے ہر سال پتھراؤ کے الزام میں قریباً ایک ہزار بچوں کو گرفتار کرتا ہے۔فلسطینی قیدی کلب کے اندازے کے مطابق اس وقت اسرائیلی جیلوں میں دوسو سے زیادہ کم سن فلسطینی قید ہیں۔ان میں چار لڑکیاں ہیں اور ملک ان میں سب سے کم عمر تھی۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین