فلسطین کی منظم مذہبی سیاسی جماعت "اسلامی تحریک مزاحمت”حماس کے پارلیمانی بلاک کے سربراہ اور تنظیم کے مرکزی رہ نما ڈاکٹر صلاح الدین بردویل نے کہا ہے کہ آئندہ جمعہ کو خالد مشعل اور صدر محمود عباس کے مابین قاہرہ میں ہونے والی ملاقات کا مقصد قوم کو درپیش چیلنجز سےنمٹنے کے لیے مشترکہ قومی حکمت عملی تشکیل دینا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس فتح سمیت تمام فلسطینی دھڑوں کو مفاہمت میں شریک کرنا چاہتی ہے۔
اس سلسلے میں دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے تیز کر دیے گئے ہیں۔
اردنی اخبار”السبیل”کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر بردویل نے کہا کہ فلسطینی صدرمحمود عباس کے سامنے ان کے تمام سیاسی آپشن ناکام ثابت ہوئے ہیں بالخصوص حماس کا وہ نقطہ نظر کہ فلسطین میں مفاہمت کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں اور یہ کہ یک طرفہ طور پر اور قومی اتفاق رائے کے بغیر کسی بھی قسم کا اقدام کامیاب نہیں ہو سکتا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل محمود عباس کے ساتھ محض ملاقات برائے ملاقات نہیں کرنا چاہتے بلکہ ان کا مقصد ایک ایسی قومی تزویراتی حکمت عملی کی تشکیل ہے جس کے ذریعے قوم کو درپیش تمام چیلنجز سے نمٹا جانا ہے۔ حماس کی اولین کوشش یہ ہے کہ مفاہمت صرف ان اساسوں اور اصولوں پر ہونی چاہیے جس میں فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو نقصان نہ پہنچے بلکہ قومی امنگوں اور توقعات کے مطابق سیاسی پیش رفت کی جائے”۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں ڈاکٹر صلاح الدین بردیل کا کہنا تھا کہ رام اللہ اتھارٹی اور صدرابو مازن پر واضح ہو گیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ نام نہاد مذاکرات کا تجربہ اور فلسطینی ریاست کے لیے سلامتی کونسل سے رجوع ناکام تجربات ثابت ہوئے ہیں، جس کے بعد ان کا قوم کی جانب رجوع ضروری ہو گیا تھا۔
عرب ممالک میں جاری”انقلاب بہاریہ” کے مسئلہ فلسطین پر اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے حماس رہ نما نے کہا کہ عرب ممالک میں آنے والے انقلاب نے فلسطینی عوام میں جینےاور اپنے حقوق کے حصول کی ایک نئی امنگ پیدا کی ہے۔ ان انقلابات نے فلسطینی اتھارٹی کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ امریکا اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات بے سود ہیں،انہیں اب لا محالہ قوم کی جانب پلٹنا ہو گا۔
فلسطین میں مابعد مفاہمت تشکیل پانے والی قومی حکومت کا ہیڈکواٹرغزہ میں قائم کرنے کے بارے میں میڈیا میں آنےوالی اطلاعات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر بردویل نے کہا کہ انہیں ان اطلاعات کی صحت کے بارے میں کوئی علم نہیں، کیونکہ ابھی تک صرف حماس اور فتح سربراہ ملاقات کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس بات کا فیصلہ اسی سربراہ ملاقات میں ہو گا کہ آیا آئندہ قومی حکومت کا ہیڈ کواٹرغزہ کی پٹی میں ہو گا یا مغربی کنارے میں ہو گا۔