فلسطینی مجلس قانون ساز کے ڈپٹی اسپیکر ڈاکٹر احمد بحر نے فلسطینی انتظامیہ کےغیرآئینی وزیرخارجہ ریاض المالکی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر حماس پر الزامات کی بوچھاڑ پر کڑی تنقید کی ہے۔ احمد بحر نے صدر محمود عباس پر زور دیا ہےکہ وہ قیدیوں کے تبادلے پر تنقید کرنے پر ریاض المالکی کو فلسطین سے نکال دیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کےمطابق فلسطینی مجلس قانون ساز کے اسپیکر ڈاکٹر احمد بحر نے غزہ کی پٹی میں میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا کہ "رام اللہ میں فتح کے غیرقانونی حکومت کے وزیرخارجہ ریاض المالکی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ طے پائے اسیران کے تبادلے کے معاہدے پر شک کے اظہار پر حیرت ہوتی ہے۔
انہیں یہ بات قطعا زیب نہیں دیتی کہ وہ حماس اور اسرائیل کے مابین طے پانے والے معاہدے کو وقت کےاعتبار سے ایک غلط فیصلہ قرار دیں۔ ریاض المالکی کی جانب سے یہ الزام کہ معاہدے کے تحت کئی فلسطینی اسیران کو ملک بدر کیا جائے گا، ریاض المالکی نے اسرائیل کے ساتھ طے پانے والے ایک تاریخی معاہدے کو شک کی نگاہ سے دیکھنا فلسطینیوں کے ساتھ دشمنی رکھنے کے مترادف ہے”۔
ممتاز فلسطینی سیاست دان ڈاکٹر احمد بحرنے کہا کہ ریاض المالکی نے ایک ایسا بیان دیا ہے جس سے قومی وحدت کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے تمام عسکری تنظیموں اور قوم کے متفقہ فیصلے پر اعتراض کر کے قوم دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ ریاض المالکی کے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو حاصل ہونے والی اس خوشی کو چھیننا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر احمد بحر نے استفسار کیا کہ محمود عباس اور فتح کے دیگر رہ نما یہ بتائیں آیا ان کی جانب سے سلامتی کونسل میں فلسطینی ریاست درخواست کے ذریعے ایک فلسطینی اسیر کو بھی رہا کرا چکی ہے۔ حماس کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ستمبر اقدام سے بدرجہ بہتر ہے، کیونکہ اس معاہدے میں ایک ہزار ستائیس قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔
احمد بحر کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ طے پائے معاہدے میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے90 فی صد مطالبات تسلیم کیے گئے ہیں۔
ریاض المالکی کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیا وہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ کیے گئے قیدیوں کے تبادلے پر معاہدوں میں فلسطینی شہریوں اور مجاہدین کو جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ موجودہ حالات میں اس قیدیوں کے تبادلے کا اس سے بہتر کوئی اور معاہدہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔