لبنانی اراکین پارلیمان نے فلسطین میں اسرائیلی ریاستی دہشت گردی اور غزہ میں مسلط معاشی ناکہ بندی پرشدید احتجاج کیا ہے۔ شامی خبررساں ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق بیروت میں اراکین پارلیمان کے اجلاس کے دوران کئی اراکین نے اپنی تقاریرمیں اسرائیلی جنگی جرائم پرعالمی خاموشی کو شدید تنقید
کا نشانہ بنایا۔
بعد ازاں پارلیمان میں ایک قرارداد پیش کی گئی،
جس میں عالمی پارلیمانی بورڈ کی جانب سے اسرائیلی ریاستی دہشت گردی پرخاموشی کی پالیسی کو صہیونیت کی پشت پناہی کے مترادف قراردیا۔ قرارداد میں کہاگیا کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی خاموشی سے اسرائیل کو ریاستی دہشت گردی جاری رکھنے اور غزہ پر معاشی جنگ مسلط کرنے کا جواز مہیا کیا جا رہا ہے۔ عالمی برادری کی خاموشی سے اسرائیل فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکال باہر کرنے، مغربی کنارےمیں اور بیت المقدس میں یہودی بالادستی کے لیے آباد کاری کرنے، گھروں کو مسمار کرکے شہریوں کو شہر بدر کرنے اور مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کے لیے اس کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ قرار داد میں سوئٹرز لینڈ کے ایک اخبار میں اسرائیلی فوج کے فلسطینیوں کے اعضا کی فروخت کے دھندے پراسرائیل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایسے اقدامات کو سنگین ترین جرم قرار دیاگیا۔ قرارداد میں عالم اسلام، عرب دنیا اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والی مظالم پرخاموشی کی پالیسی ترک کریں اور انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر فلسطینی عوام کو اسرائیلی ریاستی دہشت گردی سے نجات دلائیں۔ لبنانی مجلس قانون ساز کے ارکین نے اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو یہودی ریاست قرار دینے کے بدلے یہودی آباد کاری روکنے کے اقدامات کو خطرناک قراردیاگیا۔ قرارداد میں کہاگیا کہ اسرائیل اور امریکہ ایک سازش کے تحت عرب ممالک پر دباؤ ڈال کر انہیں القدس سے دستبردار ہونے پر مجبور کررہے ہیں۔ القدس اسرائیل کا نہیں بلکہ آزاد فلسطین ریاست کا دارالحکومت ہے، اسرائیل کی جانب سے لاکھوں پناہ گزینوں کو ان کے وطن میں واپسی سے روکنا اور انہیں متبادل وطن دینے کے تجاویز غیر منصفانہ ہے، فلسطینیوں کو اپنے آبائی علاقوں میں جانے اور آباد ہونے کا حق حاصل ہے۔