مقبوضہ بیت المقدس (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی ریاست نے مقبوضہ مغربی کنارے میں تعمیر کی گئی دیوار فاصل اور سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے درمیان فلسطینی اراضی پر قبضے کا نیا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
روز نامہ قدس کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق سنہ 1948ء کی فلسطینی اراضی جسے ’’گرین زون‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور دیوار فاصل کے درمیان فلسطینیوں کی اراضی پر اسرائیلی ریاست کی دست درازی بڑھتی جا رہی ہے۔
اسرائیلی ریاست کے ’’سوسل ایڈمنسٹریشن‘‘ ادارے کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ ’’تحفظ فرد مرکز‘‘ کو پیش کی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی انتظامیہ نے دیوار فاصل کی دوسری جانب کاشت کاری کے لیے فلسطینی کسانوں کو اجازت دینے پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء کے دوران دیوار کی دوسری جانب کاشت کاری اور کھیتی باڑی کے لیے جانے کی اجازت لینے والے 24 فی صد فلسطینیوں کی درخواستیں مسترد کی گئیں جب کہ 2018ء میں مسترد کی جانے والی درخواستوں کا تناسب 72 فی صد تک جا پہنچا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام کی جانب سے نہ صرف فلسطینی اراضی کے مالکان کو جانے پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں بلکہ اراضی کے مالکان کے بیٹوں اور دیگر قریبی عزیزوں کو ساتھ لے جانے پربھی پابندیاں بڑھ رہی ہیں۔
سابقہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہاسرائیلی حکام بیورو کریکٹ نوعیت کی رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے۔ چار سال کے دوران اسرائیلی فوج نے سیکیورٹی ذرائع کی آڑ میں فلسطینیوں کو دیوار کی دوسری طرف جانے پر پابندی عائد کی جاتی رہی ہے۔
اسرائیلی اخبار ’’ہارٹز‘‘ کے مطابق دیوار فاصل کی گرین لائن کی جانب فلسطینیوں کی زرعی اراضی ایک لاکھ 37 ہزار دونم پر مشتمل ہے۔25 نومبر کو اسرائیلی انتظامیہ نے 7187 درخواستوں میں سے1876 درخواستوں پر فلسطینیوں کی منظوری دی گئی۔ گویا باقی ہزاروں درخواستیں مسترد کردی گئی تھیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کی طرف سے 4288 درخواستیں زمینوں میں کھیتی باڑی کے لیے دی گئی تھیں جن میں سے 3221 درخواستیں الگ سے دی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق 2014ء کے دوران 24424 اور 2017ء کے دوران 14857 درخواتیں دی گئیں۔ 2018ء میں 2959 درخواستیں بھیجی گئیں مگر ان میں سے بہت کم کا جواب دیا گیا۔