اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے مئی 2010ء میں صہیونی کمانڈوز کے ترکی کے بحری امدادی قافلے پر تباہ کن حملے پر بالآخر معافی مانگ لی ہے اور متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دینے اور ترکی کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا ہے۔
صہیونی وزیراعظم نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن سے جمعہ کو ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ان سے فریڈم فلوٹیلا پر حملے کی معافی مانگی ہے جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ تین سال سے جاری سفارتی کشیدگی کے خاتمے کے امکانات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔مشرق وسطیٰ کے دورے پر آئے ہوئے امریکی صدر براک اوباما نے دونوں لیڈروں کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت کرانے میں ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔
نیتن یاہو نے اپنی معافی میں اسرائیل کے بحری کمانڈوز کی ”آپریشنل غلطیوں” کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ ”واقعے کا الم ناک نتیجہ ارادی نہیں تھا اور اسرائیل کو انسانی زندگیوں کے ضیاع پر افسوس ہے”۔ بیان کے مطابق نیتن یاہو نے ایردوآن کو بتایا کہ اسرائیل نے غزہ سمیت فلسطینی علاقوں میں روزمرہ استعمال کی اشیاء کے داخلے پر عاید پابندی بھی ختم کردی ہے۔
امریکی صدر کے اسرائیل سے اردن کے لیے روانہ ہونے سے قبل امریکا کے ایک سنئیر عہدے دار نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ”انھوں نے (نیتنن یاہو نے) اسرائیلیوں کی جانب سے آپریشنل غلطی کی وجہ سے ہونے والی کسی بھی موت پر معافی مانگی ہےاور وزیراعظم رجب طیب ایردوآن نے ترکی کی جانب سے یہ معافی قبول کر لی ہے”۔
اس عہدہ دار نے بتایا کہ صدر اوباما نے بھی ترک لیڈر سے فون پر بات چیت کی ہے۔ترکی اور اسرائیل دونوں نے اس معافی کی تصدیق کی ہے اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے دونوں سابق اتحادی ممالک کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔
واضح رہے کہ ترکی کے ماضی میں اسرائیل کے ساتھ قریبی فوجی،سفارتی اورسیاسی تعلقات استواررہے ہیں لیکن اسرائیلی کمانڈوز کے 31مئی 2010ء کوغزہ جانے والے فریڈم فلوٹیلا پرحملے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔ اس واقعہ سے پہلے اسرائیل کی غزہ پرجنوری 2009ء میں مسلط کردہ جارحانہ جنگ پر بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی موجود تھی لیکن امدادی قافلے پرحملے نے جلتی پرتیل کا کام کیا تھا اور اس کے بعد ترکی نے اسرائیل سے اپنے سفیرکوبِھی واپس بلا لیا تھا اور اسرائیل کے ساتھ طے شدہ فوجی مشقیں منسوخ کردی تھی۔
ترکی فریڈم فلوٹیلا پرحملے کے بعد سے اسرائیل سے معافی کا مطالبہ کرتا رہا تھا لیکن اسرائیل نے ماضی میں معذرت کرنے سے صاف انکارکردیا تھا۔اس پر ترک حکام کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل نے اپنی جارحانہ کارروائی کے بعد مفاہمانہ اقدامات نہ کیے تو انقرہ اس کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کے درجے کو کم کردے گا۔ ترکی اسرائیل سے تعلقات کی بہتری کے لیے غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کرنے کا بھی مطالبہ کرتا چلا آ رہا ہے۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین