فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ کی زیر صدارت غزہ میں مزاحمتی کلچر کے فروغ کے لیے دو روزہ کانفرنس شروع ہوگئی- کانفرنس کے پہلے روز دو سیشنوں میں مختلف ادیب، کالم نگار، سیاسی اور قومی شخصیتوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا- پہلے سیشن کے آغاز میں ڈاکٹر یونس اسطل نے
مزاحمت کے دینی پہلو کا ذکر کیا اور مذہب اور عقیدے کے لحاظ سے مزاحمت کی اہمیت بیان کی- انہوں نے اس سلسلے میں قرآن و حدیث سے دلائل پیش کیے- ڈاکٹر زکریا سنوار نے مزاحمتی ثقافت کے اصولوں کے حوالے سے گفتگو کی اور ان اصولوں اور بنیادوں کا ذکر کیا جس پر مزاحمتی کلچر کی عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے- وزیر اعظم کے سیاسی مشیر ڈاکٹر یوسف رزقہ نے اس مزاحمتی حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت پر زور دیا جو وراثے سے اخذ کی گئی ہو- پہلے سیشن کے آخر میں ’’مزاحمتی کلچر مختلف آئیڈیالوجی اور سیاسی افکار کی روشنی میں‘‘ کے موضوع پر امجد ابو جبار کی گفتگو پیش کی گئی جو انہوں نے امریکا سے ریکارڈ کروائی- دوسرے سیشن کا آغاز ’’حرکة الاحرار الفلسطینیہ‘‘ کی جانب سے پیش کی گئی تجویز سے ہوا جس میں مزاحمتی کلچر کے فروغ میں فلسطینی جماعتوں کے کردار کا ذکر کیا گیا- ترک ادارے "IHH” کے سربراہ محمد کایا نے ’’ترکی اور اسلامی مزاحمتی مفہوم کا ادراک اور فہم‘‘ کے عنوان سے خطاب کیا- سیشن کے آخر میں وسطی غزہ میں حماس کے ترجمان یوسف فرحات نے ’’شہید نزار ریان اور مزاحمتی کلچر‘‘ کے عنوان سے تقریر میں شہید نزار ریان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا-