ترکی کے شہر استنبول میں منگل کے روز فلسطینی بچوں کی جانب سے گذشتہ برس غزہ پراسرائیلی جارحیت سے متعلق تیار کردہ تصویری خاکوں کی نمائش کی گئی، نمائش کے لیے ایک پرانی جیل جسے اب سماجی بہبود کے ایک مرکز میں تبدیل کر دیا گیا ہے کا انتخاب کیا گیا۔
نمائش کا اہتمام ترکی میں انسانی حقوق کے ایک مندوب عبداللہ آیتکین نے کیا ہے۔ عبداللہ گذشتہ برس جنگ کے دوران غزہ میں امدادی کاموں کے سلسلے میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ جنگ کے بعد انہوں نے مختلف رنگوں کے چارٹ پیپراور پنسلیں مختلف اسکولوں کے بچوں میں تقسیم کیں اور انہیں جنگ کی اپنے انداز میں جنگ کی تباہ کاریوں کی تصویر کشی کرنے کی ترغیب دی۔ بچوں نے نہایت ہنرمندی سے تصویری خاکے تیار کیے ،جو ترکی میں ناظرین کی دلچسپی کا مرکز بنے رہے۔ تصویروں خاکوں میں اسرائیلی لڑاکا طیاروں کو بم گراتے، لاشوں کے گرتے اور مکانات کو مسمار ہوتے دکھاگیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نونہالوں نے اپنے قلم سے اپنی آپ بیتی کو خاکوں کے ذریعے بڑی خوبصورتی سے ظاہر کیاہے۔ خاکوں میں بچے بتاتے ہیں کہ بمباری کے دوران کس طرح وہ اپنے گھروں سے بھاگ کرباغات میں پناہ لیتے ہیں اور واپس آتے ہیں تو اپنے مکان کو مسمار پاتے ہیں۔ عبداللہ آیتکین نے غزہ کے بچوں کے تیار کردہ خوبصورت خاکوں کو بہتر انداز میں نمایاں کرنے کے لیے 25 میٹر طویل کپڑے کا ایک بینر تیار کیا جس پران تصاویری خاکوں کو چسپاں کیاگیا۔ اس موقع پر شہریوں کی بڑی تعداد نے فلسطینی بچوں کے تیار کردہ خاکوں کو دیکھا اور ان کے فن کی تعریف کی۔ پروگرام کے انچارج عبداللہ آیتکین نے میڈیا کو بتایا کہ مصری اور اسرائیلی حکام کی جانب سے عائد پابندیوں کے باعث وہ بڑی تعداد میں خاکوں کو ترکی نہیں لاسکے، جو تصویری خاکے لائے گئے انہیں پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے پائپوں میں بند کرکے استنبول لایاگیا۔