فلسطینی قانون ساز کونسل کے فرسٹ ڈپٹی اسپیکر ڈاکٹر احمد بحر کا کہنا ہے کہ صدر محمود عباس کی 47 رکنی یورپین پارلیمانی کونسل میں کی جانےوالی تقریر نقائص کا مجموعہ تھی۔ اس تقریر کے کئی مندرجات متنازع اور قومی امنگوں کے برخلاف تھے۔
جمعرات کے روز اپنے ایک اخباری بیان میں ڈاکٹر بحر کا کہنا تھا کہ فلسطینی غیر آئینی صدر محمود عباس کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ بے سودمذاکرات کے عندیے اور کئی دہائیوں تک قوم پر مسلط کی گئی تباہی کے باوجود صہیونی ریاست سے مذاکرات کی بحالی پر آمادگی نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کی اسرائیل کے ساتھ سیاسی مخاصمت کی کوئی حیثیت نہیں، وہ صرف مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کےلیے ذرائع ابلاغ میں اسرائیل مخالف بیان دیتے ہیں۔
ڈاکٹر بحر نے محمود عباس کے اسرائیل بارے رویے میں کسی قسم کی تبدیلی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عباس محض زبانی کلامی اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف بات کرتے ہیں جبکہ ان کے زیر انتظام فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون بدستور جاری رکھا ہوا ہے بلکہ اس تعاون میں مزید توسیع کردی گئی ہے۔
انہوں نے محمود عباس کے بولے گئے لفظ فلسطینی بہار پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی کی بہار اسرائیل سے نجات میں ہے نا کہ صرف بےمعنی بولے گئے الفاظ میں۔ صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کی رکنیت کی قرارداد کے دو ہفتے بعد یورپین پارلیمنٹیرینز سے اپنے خطاب میں یورپین ممالک سے اپیل کی تھی کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں، انہوں نے فلسطینی ریاست کی رکنیت کو بہار سے تعبیر کرتے ہوئے فلسطینی بہار کے آنے کا عندیہ دیا تھا۔
انہوں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محمود عباس کی جانب سے ایسے وقت میں فلسطینی جمہوریت کی بات زیب نہیں دیتی جب ان کے زیر انتظام اتھارٹی کی فورسز مغربی کنارے میں دھڑا دھڑ حماس کے کارکنوں کو اغوا کرکے انسانی حقوق سے محروم کررہی ہیں۔
ڈاکٹر احمد بحر کا کہنا تھا کہ صدر محمود عباس نے اپنےبیان میں فلسطینی داخلی حالات اور جمہوری معاملات میں بیرونی مداخلت اور دباؤ کوتسلیم کر لیا ہے جس کا مطلب ہے کہ فلسطینی جماعتوں اور گروہوں کی جانب سے اسرائیل مخالف مزاحمت کچلنے کے لیے امریکا، یورپ اور اسرائیلی دباؤ کی بات بھی درست ثابت ہو گئی ہے۔ اور ثابت ہو گیا ہے کہ یہ قوتیں فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام علاقوں میں اسرائیلی فورسز کی حفاظت کے لیے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کروانے میں ملوث ہیں۔
فلسطینی ڈپٹی سیکرٹری ڈاکٹر بحر نے محمود عباس کی جانب سےفلسطینی مفاہمت کے مفہوم کو صرف قومی فلسطینی حکومت اور انتخابات میں محدود کرنے پر اظہار حیرت کرتے ہوئے کہا کہ قاھرہ میں فلسطینی جماعتوں کے درمیان ہونے والے مفاہمتی معاہدے کے مطابق فلسطینی سیاسی نظام کی اصلاح، فلسطینی داخلی صورتحال کےانتظام کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ جاری معرکے کے لیے قومی حکمت عملی تشکیل دینا ہوگی۔
ڈاکٹر بحر کے بہ قول فلسطینی غیر آئینی صدر فلسطینی مفاہمتی معاہدے پر عمل درآمد کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں وہ اس مفاہمت کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔