مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق امریکی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر العریان جو کہ امریکی ریاست فلوریڈا کی ایک یونیورسٹی کے سابق استاد ہیں کو بدھ کے روز ملک سے نکال دیا گیا تھا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی دانشور کو ورجینیا کے ڈالاس بین الاقوامی ہوائی اڈے سے ایک کارگو طیارے کے لیے ملک سے نکال دیا۔
ڈاکٹر سامی العربیا کی خاتون وکیل جونتھن تورلی نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ ڈاکٹر العریان امریکا سے بے دخلی کے بعد ترکی چلے گئے ہیں۔
دوسری جانب ڈاکٹر العریان نے انٹرنیٹ پر پوسٹ کیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ میں نے امریکا میں اپنا مقدمہ پوری جرات اور بہادری کے ساتھ لڑا لیکن اس کے باوجود مجھے وہاں سے بے دخل کیا گیا۔
قانونی چارہ جوئی کے دوران مجھے اور میرے خاندان کو طرح طرح کی مشکلات اور آزمائشوں میں ڈالا گیا لیکن مجھے ان تلخیوں کا کوئی شکوہ نہیں اور نہ ہی امریکا چھوڑنے پر میں مایوس ہوں ۔
خیال رہے کہ امریکی حکومت نے فلسطینی دانشور ڈاکٹر سامی العریان پر قومی سلامتی کے ایشوز کے تحت ایک مقدمہ قائم کیا تھا جس میں الزام عاید کیا گی اتھا کہ انہوں نے سنہ 2003ء میں فلسطینی تنظیم اسلامی جہاد کے ساتھ معاونت کی تھی۔ مقدمہ چلائے جانے سے قبل وہ امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم ساوتھ یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے استاد تھے۔ انہیں سنہ 2006ء میں امریکا سے بے دخلی کا فیصلہ کیا گیا تاہم بعد میں امریکی پراسیکیوٹر جنرل کی جانب سے انہیں مزید قانونی چارہ جوئی کی اجازت بھی دے دی تھی۔ انہوں نے مزید سات سال قانونی جنگ لڑی جس کے بعد انہیں امریکا سے بے دخل کردیا گیا۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین