(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ ان کی مذاکراتی ٹیم فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر داخلی مشاورت کے لیے "اہم ہفتے کے مذاکرات” کے بعد آج رات دوحہ سے اسرائیل واپس روانہ ہو جائے گی۔
یہ اعلان ایسے وقت میں آیا ہے جب صیہونی ریاست امریکی حمایت سے غزہ کی پٹی میں 14 ماہ سے زائد عرصے سے نہتے فلسطینیوں کے خلاف اپنی نسل کشی کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان م کے مطابق، ٹیم میں موساد، شاباک، اور فوج کے سینئر اہلکار شامل ہیں، جو اغوا شدہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے مشاورت کریں گے۔
صیہونی ریاست کے عبرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق، صیہونی ریاست اور حماس کے درمیان مذاکراتی میز پر اب فاصلہ کم ہو چکا ہے، جو معاہدے تک پہنچنے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ حماس نے گزشتہ مئی میں امریکی صدر جو بائیڈن کی تجویز کی منظوری کا اعلان کیا تھا، تاہم نیتن یاہو نے نئی شرائط پیش کرتے ہوئے اس تجویز سے انحراف کیا۔ ان شرائط میں غزہ میں جاری نسل کشی کی جنگ اور شہر سے جزوی فوجی انخلاء شامل تھا، جبکہ حماس جنگ کے مکمل خاتمے اورصیہونی فوج کے مکمل انخلاء پر زور دے رہی ہے۔ دوران، صیہونی میڈیا نے جنگ بندی کے حوالے سے حالیہ مذاکرات میں پیش رفت کا دعویٰ کیا ہے، تاہم اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ تمام فریقین کے لیے قابل قبول فارمولے تک پہنچنا ابھی مشکل ہے۔
غزہ کی وزارت صحت نے صیہونی ریاست کی جارحیت میں شدت کے بارے میں خبردار کیا ہے، جس نے شمالی غزہ کے صحت کے نظام کو نشانہ بنایا ہے۔ انڈونیشیائی، کمال عدوان، اور العودہ ہسپتالوں کو براہ راست بمباری کا نشانہ بنایا گیا، جس سے یہ ہسپتال خدمات فراہم کرنے سے قاصر ہو گئے۔ صیہونی فوج نے انڈونیشیا ہسپتال کو خالی کرنے پر مجبور کیا، جبکہ کمال عدوان ہسپتال کے تمام شعبہ جات پر بمباری کے باعث شدید نقصان پہنچا۔ ان ہسپتالوں کے صحنوں میں بکھرے ملبے اور خوفناک آوازوں نے علاقے میں ایک خطرناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔