انسانی حقوق کی ایک تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ میں اسرائیلی عدالتوں کی جانب سے فلسطینی شہریوں کو فراہم کیے جانے والے انصاف کی قلعی کھولی گئی ہے۔ عدالتوں نے اسرائیلی فوجیوں کے خلاف کی جانے والی چورانوے فیصد فلسطینی شکایات میں فوجیوں کو بری قرار دے دیا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضا کاروں کی تنظیم ’’یش دین‘‘ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے مظالم کے خلاف فلسطینی شہریوں کی جانب سے کی جانے والی صرف چھ فیصد شکایات میں فوجی اہلکاروں کو مجرم قرار دیا گیا ہے۔
کثیر الاشاعات اسرائیلی روزنامے ’’ھارٹز‘‘ نے اپنے بدھ کے اشاعیے میں بتایا کہ گزشتہ دس سال کے دوران اسرائیلی فوج کے خلاف فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے کی کل 3150 شکایات درج کی گئیں تاہم اسرائیلی فوج نے صرف 1949 شکایات کے لیے تحقیق کی اجازت دی اور بقیہ 1201 درخواستوں، 38 فیصد، کو رد کردیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2000ء سے 2010ء تک صرف 112 شکایات پر کی گئی تحقیق میں اسرائیلی فوجیوں کو مجرم ٹھہرایا گیا ہے جس کا معنی ہے کہ صرف 6 فیصد شکایات درست قرار دی گئیں اور بقیہ 94 فیصد شکایات میں یا تو تحقیقات ہی نہیں کی گئی اور اگر تحقیق کی بھی گئی تو اس میں اسرائیلی فوجیوں پر لگائے گئے الزامات کو رد کردیا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے اس رپورٹ میں اسرائیلی فوجی پولیس کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے طریقے کو انتہائی ناقص قرار دیا اور بتایا کہ تفتیش کار ان شکایات کی حقیقت جانچنے کے لیے کوئی کوشش بروئے کار نہیں لاتے بلکہ انتہائی بددلی سے تحقیق و تفتیش کیے بغیر ہی انہیں نمٹا دیتے ہیں۔