احمد زکی نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’’فیس بک‘‘ پر بنائے گئے اپنی ذاتی صفحے پرپوسٹ ایک مختصر بیان میں اپنے استعفے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ ایک متنازعہ مصری صحافی توفیق عکاشہ ٹی وی کے ایک پروگرام میں بلائے جانے پر انہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔
صدر محمود عباس کے رام اللہ میں قائم ہیڈ کواٹر کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ صدر کی جانب سے احمد زکی کو عہدے ہٹانے کے لیے کوئی سرکاری حکم نامہ جاری نہیں کیا گیا تاہم انہوں نے مسٹر زکی کو ٹیلی فون پربتا دیا ہے کہ انہیں عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ مصرکے ایک اسرائیل نواز صحافی توفیق عکاشہ کے نے متعدد مرتبہ فلسطینی ٹی وی کے قاہرہ سے نشرہونے والے ایک پروگرام میں شرکت کی تھی۔ ٹاک شو کے دوران مسٹرعکاشہ نے اسلامی تحریک مزاحمت’’حماس‘‘ فلسطینی تحریک آزادی، مزاحمت اور آزادی کے لیے جدو جہد کرنے والی تنظیموں کے خلاف نہایت نازیبا زبان استعمال کی تھی جس پرفلسطین بھرمیں سخت غم وغصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔
توفیق عکاشہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رواں سال جون میں مغربی کنارے سے تین یہودی آباد کاروں کی گم شدگی کا الزام بھی فلسطینی مزاحمتی گروپوں پرعاید کیا تھا اور کہا تھا کہ یہودیوں کی گم شدگی سے اسرائیل کو فائدہ پہنچا ہے۔
عکاشہ کے ان الزامات پر سوشل میڈیا سمیت فلسطین بھرمیں سخت رد عمل سامنے آیا تھا اور فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ نیوز بلیٹن میں گفتگو کے لیے توفیق عکاشہ کو مدعوکرنے والے تمام عہدیداروں کو برطرف کر دیں۔
اس کے رد عمل میں احمد زکی کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی توفیق عکاشہ کو کسی پروگرام میں مدعو نہیں کیا۔ اس بات کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے کہ آیا عکاشہ کو بلانے کا فیصلہ کس نے کیا تھا۔
خیال رہے کہ توفیق عکاشہ سنہ 2011ء میں سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف برپاہونے والے انقلاب کے بع منظرعام پرآیا تھا لیکن مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کے قیام اور ڈاکٹر محمد مرسی کے صدر منتخب ہونے کے بعد اس نے مصری ٹی وی چینلوں پر منتخب حکومت کے خلاف سخت اور بازیبا زبان استعمال کرکے شہرت حاصل کی تھی۔
مصری حکومت نے کچھ عرصہ اسے جیل میں بھی بند کیے رکھا تاہم مصرمیں فوجی حکومت آنے کے بعد اسے رہا کردیا گیا تھا۔ ان دنوں وہ فوجی حکومت کے گن گا رہا ہے۔ عکاشہ کو اسرائیل نواز مصری صحافیوں میں سرفہرست سمجھا جاتا ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین