(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) امریکی جریدہ "فورن پالیسی” نے لکھا ہے کہ 19 جنوری 2024 کو غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ شروع ہوا۔ تاہم، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ واقعی جنگ بندی ہے یا محض ایک عارضی وقفہ جو چند ہفتوں میں ختم ہو جائے گا؟
رپورٹ کے مطابق، عام طور پر جنگ بندی کو مستقل سمجھا جاتا ہے، جس میں واضح اور اعلان شدہ ارادہ ہوتا ہے کہ دوبارہ لڑائی نہیں کی جائے گی، جبکہ عارضی وقفہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔
حماس کے لیے یہ معاملہ نسبتاً آسان ہے، کیونکہ تنظیم کو جنگ بندی کی ضرورت ہے، اور اس نے معاہدے کے تین مراحل پر عمل کرنے کے عزم کا اعلان کیا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ غیر قانونی صیہونی ریاست کے لیے صورتحال بالکل مختلف ہے۔ معاہدے کے پہلے مرحلے میں صیہونی فوج کے انخلا کا کوئی ذکر نہیں ہے، اور حتیٰ کہ اگر تمام فوجی غزہ چھوڑ بھی دیں، تو بھی صیہونی ریاست، بین الاقوامی عدالت انصاف کے مطابق، غزہ کی قابض طاقت بنی رہے گی۔
لیکن اصل سوال نیت کا ہے، اور یہاں واضح اشارے موجود ہیں کہ صیہونی ریاست جنگ بندی کے ارادے سے عمل نہیں کر رہی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صیہونی وزیر خزانہ بتسلیل سموترچ نے اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت حکومت میں صرف اس ضمانت پر موجود ہے کہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ غزہ میں جنگ جاری رہے گی۔
سموترچ نے یہ بھی کہا کہ غیر قانونی صیہونی ریاست کا مقصد غزہ کو "ناقابل رہائش” بنانا ہے، اور وہ اسے مکمل طور پر تباہ کرنے کو "ضروری جنگی مقصد” سمجھتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو نے بھی واضح طور پر کہا کہ یہ جنگ بندی محض عارضی ہے اور صیہونی ریاست کو غزہ میں دوبارہ شدت کے ساتھ جنگ چھیڑنے کے لیے "مکمل حمایت” حاصل ہے۔
رپورٹ کے آخر میں کہا گیا کہ حقیقی اور دیرپا جنگ بندی اسی وقت ممکن ہے جب امریکہ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے صیہونی ریاست پر دباؤ ڈالے کہ وہ معاہدے کی شرائط پر عمل کرے۔ لیکن بدقسمتی سے، اس بات کے بہت کم شواہد ہیں کہ امریکہ ایسا کرے گا۔