اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی انتظامیہ نے اسرائیل کو پیش کش کی ہے کہ وہ فلسطین کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر جزوی اور غیر اعلانیہ طور پر ہی بند کر دے تاکہ فلسطینی اتھارٹی مذاکرات سے فرار اختیار نہ کر سکے۔
عبرانی زبان میں شائع ہونے والے کثیر الاشاعت اسرائیلی روزنامے ’’معاریف‘‘ کے مطابق امریکا کی اس پیش کش پر عمل کی صورت یہ ہو گی کہ اسرائیل نئی یہودی کالونیوں کی تعمیر اور اسی طرح پہلے سے موجود یہودی بستیوں کے باہر رہائشی یونٹس تعمیر نہ کریگا۔
اسرائیل کی جانب سے اس پیش کش پر حامی بھر لینے کی صورت میں امریکا فلسطینیوں کو اس بات کی ضمانت بھی مہیا کرنے پر تیار ہے کہ اگر اسرائیل نے اس مفاہمت کی خلاف ورزی کی تو وہ اس کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے گا۔
امریکا کی جانب سے کیے جانے والے تادیبی اقدامات میں وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف بیان دینے اور مغربی ممالک اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدات کی منسوخی کا آپشن اختیار کر سکتا ہے۔ تاہم امریکا اس بات کا پاپند رہے گا کہ وہ طے شدہ مقامات پر کی جانے والی تعمیرات پر اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی تنقید نہ کرے۔
روزنامے کے مطابق اس امریکی پیشکش پر اسرائیلی موقف کے بارے میں تاحال کوئی علم نہ ہو سکا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسرائیلی وزارت عظمی کے دفتر کا موقف یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ کسی پیشگی شرط کے بغیر ہی براہ راست مذاکرات شروع کر سکتا ہے۔
خیال رہے کہ مشرق وسطی کے مسائل کے حل کے لیے بنائی گئی چار رکنی ثالثی کونسل کے نمائندے اس ضمن میں کل بروز بدھ فلسطینی مذاکرات کار عملے کے سربراہ صائب عریقات اور اسرائیلی وزیر اعظم کے نمائندے یٹزاک مولخو سے ملاقات کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان براہ راست مذاکرات اس وقت معطل ہو گئے تھے جب اسرائیل نے یہودی بستیوں کی تعمیر کی دس ماہ کے لیے جزوی بندش کی مدت ختم ہوتے ہی تعمیراتی کام دوبارہ شروع کر دیا تھا اور بارہا فلسطینی اصرار کے باوجود اس مدت میں توسیع سے انکار کر دیا تھا۔ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اب بھی مذاکرات کی بحالی کے لیے یہودی بستیوں کی جاری تعمیر کو روکنے کی شرط عائد کی جا رہی ہے۔