اردن میں فلسطینیوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم نے متعدد علماء کی جانب سے اردنی امراء کے ساتھ القدس کے دورے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ
اس طرح کی زیارتوں سے صہیونی حکام کو دنیا کو یہ باور کروانے کا موقع ملے گا کہ اس کے زیر نگیں القدس میں تمام مذاہب کو مکمل آزادی حاصل ہے۔
’’دینی اعتدال پسندی’’ کے نام سے کام کرنے والی اس تنظیم کا کہنا ہے کہ مصر کے مفتی اعظم علی جمعہ، یمن کے مبلغ حبیب بن الجفری کی جانب سے القدس اور قبلہ اول مسجد اقصی کے دوروں سے دشمن ریاست کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی کی راہیں کھل گئی ہیں جس کے بعد اب اس کے ساتھ اقتصادی، سیاسی اور سکیورٹی تعاون کا باب بھی کھل جائے گا۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ویزے پر اس کی نگرانی میں مسجد اقصی کی زیارت اسرائیلی صہیونی ریاست کو فلسطینیوں پر یومیہ مظالم اور اس بابرکت شہر کو یہودیانے کی کارروائیوں کی پردہ پوشی کو موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
اردنی تنظیم نے اردن اور فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام پر تسلط جمانے والے اسرائیل کے ساتھ مذہبی رواداری کے مظاہروں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جو کوئی بھی القدس کی مدد کرنا چاہتا ہے کہ اس مقدس شہر میں فاتح کی حیثیت سے آئے ناکہ زیارت کے لیے۔
تنظیم کے بہ قول اسرائیل کی جانب سے القدس کو یہودی رنگ میں رنگنے کی کوششوں کے مسلسل جاری رہنے کے ذمہ دار اردنی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی ہی ہیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین

